الطاف گوہر …. حرفے چند


راجہ الطاف حسین گوہر الرحمن جنجوعہ نام تھا، الطاف گوہر کے نام سے بگولہ بدوش رہے۔ شخصیت کے بنیادی حوالے تین تھے، ادب، سرکاری ملازمت اور صحافت۔ تصویر کے دو رخ بے حد روشن اور بیچ میں گویا فنی توازن کے لیے خال سیاہ سے کام لیا تھا۔ 40ء کی دہائی میں اعجاز حسین بٹالوی اور سردار انور خان کے جلو میں حلقہ ارباب ذوق میں رونمائی ہوئی۔ میرا جی کی صحبت میں رچاﺅ پایا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتامی ایام میں کار سرکار سے منسلک ہوئے۔ کوئلے کی اس کان میں بری طرح کھدیڑے گئے۔ برسوں ایوب خاں کا نفس ناطقہ رہے۔ صحافت کے بال و پر کترنے میں ذہانت وہبی اور مقراض لسانی کو آلات کسب کا درجہ دیا۔ فیلڈ مارشل موضع ریحانہ سدھارے تو الطاف گوہر کی بھی کایا کلپ ہوئی۔ روز نامہ ڈان کی ادارت سنبھالی تو گویا اپنے ہی بچھائے ہوئے دام میں خود چل کر آئے۔ دولت دشنام کو مدت سے زوال نہیں تھا ، اب جبروت سلطانی کا جلوہ بھی پایا۔ قید ہوئے۔ الزامات ایسے ہی پوچ جیسے حبیب جالب اور استاد دامن کے خلاف تراشے جاتے تھے۔ کار دنیا میں درک برقرار رہا مگر بانس بدھی میں شگاف آ گیا تھا۔ ایک جزو نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اقتدا قبول کی، دوسرا حصہ آزادی صحافت، قانون کی بالادستی ، جمہوریت کی سربلندی، انسانی حقوق ، دولت کی منصفانہ تقسیم اور عوام کے بہتر معیار زندگی کی جہد میں مصروف ہوا۔ طبیعت دبنگ تھی، ذہانت بے پناہ اور مشاہدات متنوع ۔ ابتدائی ادبی تحریروں سے قطع نظرخاصے کی چیز وہ اخباری مضامین ہیں جو حیات مستعار کے آخری برسوں میں بزبان اردو ہفتہ وار کالموں کی صورت میں لکھے گئے۔ دردمندی، حوصلہ اور بصیرت میں گندھے اسلوب کا ایک مختصر انتخاب ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

ترقی مساوی اور مناسب مواقع تک رسائی کا نام ہے۔\"ghdgd\"

٭٭٭

ایک مجبور و محکوم معاشرہ میں ایک وقت میں ایک ہی نسل بڑھ سکتی ہے۔ ایک پختہ،منصفانہ اور ترقی پذیر معاشرہ میں تین نسلیں بیک وقت سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ بزرگ اپنے تدبر اور تجربہ سے،نوجوان اپنے فکر و عمل سے اور پروان چڑھتے ہوئے سیماب صفت بچے اپنے ہر لحظہ بدلتے اور سنورتے ہوئے جذبات اور خواہشات سے معاشرہ کی تعمیر و ترویج میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر جہاں معاشرہ انسان سے سارے حق چھین لے تو جسم و جاں کو یکجا رکھنا ہی مقصد حیات بن جاتا ہے۔

٭٭٭

میں نے 1969ءمیں انگریزی روزنامے ’ڈان‘ کی ادارت سنبھالی۔ ایک شخص جو پریس کا ’نگران‘ تھا، پریس کی آزادی کا شکار ہو گیا۔ اس دوران میں نے یہ سبق سیکھا کہ کسی بھی طرح کے حالات میں سرکاری پروپیگنڈے کا آلہ کار پریس نہ تو عوام کا اعتماد حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی رائے عامہ کو متاثر کر سکتا ہے۔ آپ ایسے پریس کے ذریعے حکومتی کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹ سکتے ہیں۔ ہر قسم کی اختلافی رائے اور تنقید کا راستہ روک سکتے ہیں لیکن اگر آپ عوام کی رائے پر ذرہ برابر اثر انداز ہونے کی توقع کرتے ہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ صحافت کا ایک ہی مقصد ایک ہی فریضہ اور ایک ہی ذمہ داری ہے اور وہ ہے حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید اور اس کا مسلسل احتساب….

٭٭٭

شخصی حکومت میں حاکم کے ساتھ وفاداری اعلی ترین قدر اور اہلیت کا آخری پیمانہ قرار پاتی ہے۔ وفاداری کی اس دوڑ میں کوئی شاہ کا مصاحب بن جاتا ہے اور کوئی محض درباری مسخرہ….

٭٭٭

ڈھاکہ سے واپس آنے والا ایک نوجوان افسر ایک محفل میں ڈھاکہ شہر کے مرکز میں شہریوں کے قتل عام کی داستان مزے لے کر سنا رہا تھا کہ کس طرح فرنٹیر سکاﺅٹ کے ایک کرنل نے بیس بنگالیوں کو بھون کر رکھ دیا۔ جب میرا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو میں نے کہا کہ \”آج مجھے پاکستانی ہونے پر شرم آرہی ہے \”….

٭٭٭\"ayub-khan-and-altaf-gauhar\"

ایک فوجی سربراہ مملکت خواہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو ملک کو سیاسی ترقی اور عوامی خوشحالی کی منازل کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ کوئی فرد واحد عوام کی رائے کا بدل ثابت نہیں ہو سکتا۔ عوام ایک سیاسی حقیقت ہیں اور حکومت کو اس عظیم حقیقت کے سامنے ہمیشہ سرنگوں اور جوابدہ رہنا چاہیے۔

٭٭٭

1980ءمیں لندن کے ٹریفالگر سکوائر میں چند لڑکے لڑکیوں کا ایک گروہ\”نیلسن منڈیلا کو رہا کرو\”کے جھنڈے اٹھائے کھڑا تھا میں نے ایک نوجوان سے پوچھا \”آپ لوگ یہاں کب سے کھڑے ہیں؟\”اس نے جواب دیا \”کوئی پانچ برس ہوگئے\”اور کب تک کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟\”نوجوان نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا \”جب تک نیلسن رہا نہیں ہو جاتا\”\”آپ کو اس کی کوئی امید ہے؟\” میں نے سوال کیا نوجوان نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھ کر کہا \”احتجاج حق کے لیے کیا جاتا ہے کامیابی کی ضمانت کی بنیاد پر نہیں\”۔

٭٭٭

نواب کالا باغ جابر تھا اور اس کا انجام انتہائی افسوس ناک ہوا،ان کی گورنری کا دور ایک لحاظ سے امن کا دور تھا مگر اس دور میں عوام کو ان کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا،لوگ اس زمانے کی خاموشی کو قبرستان کا سکوت سمجھتے تھے،وہ لوگ جو امن امان کی خاطر ملک میں فوجی حکومت کے قیام کے طلب گار بن رہے ہیں انھیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔

٭٭٭

خان،وڈیرے ،نواب ہی ملک کے اصل حاکم ہیں،وہی عوام کے نمائندے بھی ہیں اوران کی تقدیر کے مالک بھی۔ ذ ات، برادری کے رشتے، رنگ اور نسل کی تفریق، خوشامد، رشوت، انتقام، مخبری اور سازش یہی وہ اقدار ہیں جو ہمارے خان، وڈیرے اور نوابزادے پہچانتے ہیں اور یہی اقدار اب ہماری قومی پہچان بن گئی ہیں۔ اس نظام میں زمینداروں کے شریک کون ہیں؟

ہمارے علماءکرام جو جدی پشتی جاگیروں کو جائز سمجھتے ہیں اور جو عشر کے علاوہ ان جاگیروں کی آمدنی پر کوئی ٹیکس لگانا غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ وہ عوام کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہیں کہ پاکستان کے شہری بلاکسی امتیاز کے اپنے نمائندے چننے کا حق رکھتے ہیں۔

٭٭٭

اکثریت کے اصول کی پامالی میں ہمارے سول اور فوجی افسروں کے ایک گروہ کے علاوہ علماءکرام بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض نے تو آزادی کی جدوجہد کے دوران بھی اکثریت رائے کے اصول کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ علماءکرام نے اپنے تئیں فیصلہ کر لیا کہ جب پاکستان بن ہی گیا ہے تو ا ب اسے اسلامی لبادہ پہنانا ان کا فرض ہے۔ عوام ان کے نزدیک جانوروں کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ مصر تھے کہ عوام کی مرضی ایک مغربی نظریہ ہے جس کے لیے قرآن اور حدیث میں کوئی جگہ نہ تھی۔ مرضی تو اہل الرائے حضرات کی ہوتی ہے۔ وہ آج بھی یہ کہتے ہیں کہ حبل من اللہ اور حبل من الناس کا حکم صرف یہودیوں کے لیے ہے،مسلمانوں کو جبل من الناس (عوام کے حکم) کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہیے۔ انھیں تو اپنی بقا کے لیے کسی امام،کسی مفتی،کسی شیخ کا دامن پکڑنا چاہیے چونکہ یہی لوگ دینی معاملات میں رائے قائم کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ان کی رائے عوام کی رائے سے بہرصورت معتبر اور صائب ہے۔

٭٭٭

وہ تمام مساجد جو عربوں کے سرمایہ سے بنائی گئی ہیں اور جہاں امام اور ان کا عملہ عربوں کے تنخواہ دار ملازم ہیں وہاں کسی کو سیاسی،قومی یا کسی بین الاقوامی مسئلے پر تقریر کی اجازت نہیں،منبر جو ہماری تاریخ میں ابلاغ کا سب سے موثر اور طاقتور ادارہ تھا اب خوف اور رشوت کی نذر ہو چکا ہے۔ منبر پر جو پابندیاں لگ چکی ہیں اس کے بعد کسی امام سے یہ توقع کرنا کہ وہ قومی مسائل پر کوئی بات کرے گا،بے سود ہے۔

٭٭٭

آزادی مل گئی،سوچ غلامانہ رہی،وہی نفرتیں،وہی برادری اور نسل کے فساد،وہی اوہام پرستی،وہی لوٹ کھسوٹ،اتنے بڑے برصغیر میں پشاور سے کلکتے تک جاتی ہوئی \"675\"جرنیلی شاہراہ افلاس،جبر اور جہالت کی تحریر ہے۔

٭٭٭

صدارت کی تقریب حلف برداری میں ایک پنڈت ایک مولوی،ایک یہودی عالم اور بشپ ٹوٹو پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ ان چاروں حضرات کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اس تاریخی موقع پر دعا پڑھنا تھی۔ عیسائیوں کے ایک گروہ نے ایک روز پہلے سخت احتجاج کیا تھا کہ ہندوﺅں،مسلمانوں اور یہودیوں کو اس تقریب میں دعا مانگنے کی دعوت کیوں دی گئی ہے مگر کسی نے اس احتجاج کو قابل اعتنا نہ سمجھا۔ میں سوچنے لگا اگر ہمارے ہاں کسی صدارتی تقریب میں کسی پنڈت یا یہودی کو دعا مانگنے کی اجازت دے دی جائے تو معلوم نہیں قصر صدارت پر کیا گزرے۔ علامتی طور پر سہی مگر مختلف مذاہب کے علماءکی شرکت سے نیلسن منڈیلا نے یہ پیغام دیا کہ جنوبی افریقہ میں مذہب اور عقیدے کی بنا پر کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہو گی۔

٭٭٭

آئین کے مطابق دفاعی افواج کے ہر ملازم کویہ حلف لینا پڑتا ہے کہ وہ ہرگز کسی سیاسی کارروائی میں حصہ نہیں لے گا،اگر اس حلف کی کوئی حرمت ہے تو فوج کے خفیہ اداروں کو سیاسی معاملات میں دخل دینے سے کیوں نہیں روکا گیا ، یقین کیجئے کہ دشمن کے لیے ہمارا یہ جرم فراموشی انتہائی سود مند ہے، وہ تو مطمئن ہے کہ پاکستان کی فوج کے حساس خفیہ ادارے دن رات ملکی سیاست میں لگے ہوئے ہیں، وہ سیاستدانوں کی خبر گیری کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، اخباروں،تعلیمی اداروں اور تجارتی حلقوں میں ان کے تنخواہ دار کارندے اس کام میں مصروف ہیں کہ فوج پر کسی قسم کی تنقید نہ ہونے دی جائے اور اگر کوئی شخص کسی کمزوری کی نشاندہی کرے تو اسے وطن دشمن قرار دیا جائے۔

ؒ٭٭٭\"7283772\"

صرف پاکستان ہی کے لوگ نہیں ہر اسلامی ملک کے عوام کا ذہن ماضی کی گرفت میں ہے۔ حال سے مایوسی اور مستقبل کا خوف یہ دونوں ہمیں ماضی کی یادوں میں کھو جانے پر مجبور کرتے ہیں،شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں مسلمان اللہ اور عوام کی مرضی کے مطابق کوئی نظام حکومت قائم کر سکے ہوں۔ بیشتر اسلامی ممالک آمرانہ یا موروثی حکمرانوں کے قبضے میں ہیں۔ ان حکمرانوں نے پڑھے لکھے طبقے کے لوگوں کو جن میں علما کرام بھی شامل ہیں،اپنا ثنا خواں بنا رکھا ہے۔

٭٭٭

تقلید کی روایت نے ہمیں ذہنی اور سیاسی طور پر مجبور اور محکوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے تو ہم نے اپنے آپ پر اجتہاد کے دروازے بند کر لئے اور پھر اس خوف سے کہ امت مسلمہ کہیں فتنہ و فساد کا شکار نہ ہو جائے ہم نے اختلاف رائے کو یکسر ممنوع قرار دے دیا اس کے بعد خلیفہ وقت کے لیے اپنے آپ کو ظل الہی کہلانے میں کوئی مشکل نہ رہی۔ خلافت ملوکیت میں بدل گئی،خاموشی اور اطاعت عوام کا مقدر بن گئی اور چند زر خرید عالم اور مفتی اسلامی فکر پر قابض ہو گئے۔

٭٭٭

کوئی جابر حاکم یہ نہیں چاہتا کہ عوام کو تعلیم میسر ہو،لوگ پڑھ لکھ جائیں تو پھر وہ سرکاری کارندوں کے سامنے اکڑنے لگتے ہیں۔ اگر انھیں طبی سہولتیں میسر آ جائیں تو پھر انھیں صحت اور ہمت کی دولت مل جاتی ہے۔ اگر انھیں سر چھپانے کے لیے گھر مل جائے تو پھر وہ مارے مارے نہیں پھرتے اگر انھیں روزی میسر آ جائے تو پھر وہ بھیک مانگنے کی لعنت سے نجات پا لیتے ہیں۔ کوئی جابر حاکم یہ گوارا نہیں کرتا کہ یہ تمام سہولتیں ایک شہری کے بنیادی حقوق میں شامل ہوں اور قوم کی دولت پر ان سہولتوں کو باقی تمام ضرورتوں پر فوقیت حاصل رہے۔

٭٭٭

جبر کی حکومت کی اساس فوجی طاقت پر ہوتی ہے اور جابر حکمران سب سے پہلے عوام کو اس خوف میں مبتلا کرتا ہے کہ اگر فوجی طاقت میں ذرہ بھر کمی آئی تو وہ دشمنوں کے نرغے میں پھنس جائیں گے اور اپنی آزادی یا سلامتی سے محروم ہو جائیں گے۔ حکومت عثمانیہ،فوجی اخراجات کے بوجھ تلے دم توڑ گئی تھی اس پر دشمن اس لیے غالب آ گئے تھے کہ اس نے عوام کی بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینا ختم کر دیا تھا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے ۔ قوم کی سالانہ آمدن اور قرض سے حاصل کیا ہوا سرمایہ فوجی اخراجات،سود کی ادائیگی اور سرکاری اداروں کی مالی ضروریات پوری کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ عوام کی تعلیم،صحت، رہائش اور روزگار جیسی ضرورتوںکو پورا کرنے کے لیے اللہ سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

٭٭٭\"old-449\"

میرا ایمان ہے کہ جب تک تعلیم ،صحت ،رہائش اور روزگار جو عوام کی بنیادی ضرورتیں اور بنیادی حقوق ہیں پورے نہیں کئے جاتے کوئی جمہوری نظام حکومت چل نہیں سکتا۔ ہم نے اپنے آپ پر دشمن کا خوف طاری کر رکھا ہے اور خوف کا یہ ہتھیار ہمارے حکمران عوام ہی کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

٭٭٭

ہر قومی ادارے کا ایک مخصوص دائرہ کار اور اختیار ہے،اس دائرے کی حدود سے تجاوز کرنا نہ قوم کے لیے اچھا ہے نہ ادارے کے لیے۔ ہماری فوج اگر سیاسی ذمہ داریاں نہ سنبھالتی تو نہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوتا اور نہ ہی ہماری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا،اگر ہماری نوکر شاہی اپنی منصبی حدود سے باہر نہ نکلتی تو آج انتظامیہ کا اثر و رسوخ بھی برقرار ہوتا اور سرکاری اہل کار بھی ایسی ذلت اور بے بسی کا شکار نہ ہوتے۔

٭٭٭

ایک جمہوری نظام میں حکومت کے مفاد وہی ہوتے ہیں جو قوم کے مفاد ہوتے ہیں،عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں اور ملک کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

٭٭٭

اخبارات حکومتوں کو بناتے اور بگاڑتے ہیں ،یہ ان کا حق ہے اور یہی عوامی ترجمانی کا تقاضہ ہے،صحافت جمہوری نظام کا ایک ستون ہے اور اس ستون کو یہ فرض سپرد کیا گیا ہے کہ وہ آزادی اظہار کی عمارت کو استوار کئے رکھے۔ جمہوری نمائندہ حکومت کے عیب چھپانا اور اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا اخبارات کا کام نہیں،عوام اخبارات سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلاخوف و ہراس حالات کو صحیح طور پرپیش کرتے چلے جائیں چاہے اس سے حکومت وقت کو فائدہ پہنچے یا نقصان۔

٭٭٭

اسلام کی افادیت کا اندازہ مسلمانوں کی تاریخ ہی سے لگایا جائے گا،ایسے ہی جیسے ہم ہندوﺅں،عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں اپنی رائے ان کی تاریخ،ان کی زندگی،اور ان کے رہن سہن کے طریقوں کے مطالعہ اور تجربے کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں۔ دوسرے بھی ہمارے مذہب کے بارے میں اپنی رائے،ہماری تاریخ اور ہمارے اطوار ہی کی روشنی میں قائم کرتے ہیں۔ یہودی اگر کہیں کہ آپ ہمارے بارے میں جو بھی رائے قائم کرنا چاہیں تو رات پڑھ کر قائم کریں اور ہماری تاریخ جو منافقت،استحصال اور دہشت گردی سے بھری ہوئی ہے اسے نظر انداز کر دیں تو ہم یہ تجویز رد کر دیں گے،اسی طرح اگر مسلمان یہ کہیں کہ صاحب ہماری تاریخ کو چھوڑئیے اور یہ بھلا دیجئے کہ ہم نے اپنے ملکوں میں کس طرح کے نظام حکومت قائم کر رکھے ہیں اور ہمارے بارے میں قرآن کریم کو پڑھ کر رائے قائم کر یں تو مسلمانوں کو چھوڑ کر اور کوئی اس نقطہ نظر کو قبول نہیں کرے گا۔

٭٭٭\"41ald-jquzl-_uy250_\"

قانون کو کسی غرض کے تابع نہیں کیا جا سکتا خواہ وہ غرض نیک ہو یا بد۔قانون اقتدار کا آلہ کار نہیں،اقتدار کا محافظ اور محاسب ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور عزت کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہے۔ اگر حکومت ججوںکو اپنا غلام بنانے کا تہیہ کر لے تو پھر ہوس اور خوف کی راہیں کھل جاتی ہیں۔

٭٭٭

میں نے پوچھا \”پروفیسر کولسن آپ کے خیال میں مسلمانوں کے فکری ،معاشرتی اور سیاسی تنزل کی وجہ کیا ہے؟\” پروفیسر کولسن کچھ سوچ کر بولے \”آپ لوگوں نے دین کے معنی بھلا دئیے،دین کے بنیادی اصول،آزادی،مساوات،عوام کی عظمت اور احتساب آپ ان سب سے غافل ہو گئے،لفظی اور فروعی موضوع آپ کی فکری توجہ کا مرکز بن گئے \”-

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments