جاگدے رہنڑاں، ساڈے تے نا رہنڑاں


موجودہ ملکی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ کسی بھی قسم کی تنقید حکومت وقت پہ کرنے کے بجائے عوام کا ساتھ دیا جائے اور اپنی سی کوشش کرنی چاہیے کہ توقعات، امیدیں، حوصلے پست نہ ہونے پائیں۔ اور ایسا کرنا کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں پوری عوامی طاقت مل کر ایسا کر سکتی ہے۔ اور یہ کوئی انہونی بھی نہیں ہے ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ ایسا ہو سکتا۔ میرے ڈھول سپاہیا پہ جب یہ قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو پھر اس قوم کو سچ بول کے کیوں بیدار نہیں کیا جا سکتا۔

حیرانگی اس بات پہ ہے کہ ہم جس 65 کی جنگ میں فتح کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور ہر سال یادگاری دن بھی مناتے ہیں۔ کیا ہم اگر اپنے گریباں میں جھانک کے دیکھیں تو ہم میں وہی جذبہ اب بھی موجود ہے؟ راقم الحروف کو تو اپنے گریباں میں جھانکتے ہوئے سوائے شرمندگی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آپ اگر حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ کا سہارا لیجیے تو راقم الحروف کو جھٹلا دیجیے۔ لیکن اگر سچ سے یاری کرنا آپ نے سیکھا ہے تو آپ سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں پائیں گے۔ ایسا کیوں ہے؟

ملاحظہ کیجیے کہ چین میں ایک وبا پھوٹ پڑی۔ پوری دنیا کی نظریں چین پہ جم گئیں۔ پاکستان جیسے دوست ممالک آگے بڑھے تو اکثریت ایسے ممالک کی تھی جو تماشا دیکھنے میں مصروف تھے۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جن سے چین قابو نہیں ہو رہا تھا اور وہ اب دیکھنے لگے کہ دیکھتے ہیں کب چین گھٹنوں کے بل اُن سے مدد مانگتا ہے۔ لیکن یہ خواب ہی رہا اور چین نے ہسپتال بنانا ہو یا پورا شہر لاک ڈاؤن کرنا، ہر مرحلہ طے کر لیا۔ اور دنیا دیکھتی رہ گئی۔

دنیا کو توقع تھی کہ یہ مسئلہ صرف چین کے ساتھ درپیش آیا ہے لیکن پھر ڈائمنڈ کروز شپ سامنے آیا تو ایران کا شہر قم بھی خبروں میں آنے لگا۔ اور وبا پوری دنیا میں پھیل گئی۔ آخری اطلاعات تک اس کا دائرہ 150 سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔ اٹلی، ایران، سپین لاشیں اٹھاتے تھکتے جا رہے ہیں۔ لیکن دنیا کا نظام کسی نہ کسی طرح بہرحال رینگ رہا ہے۔ پاکستان میں پہلے کورونا پہ طنز و مزاح ہوا، پھر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس پہ لطیفے بننے لگے، مزید وقت گزرا، خبریں آئیں تفتان پہ کچھ لوگ آئے ہیں لیکن فکر کی بات نہیں کہ انہیں وہاں ہی روک لیا گیا ہے، وقت رینگا پھر خبریں آئیں کہ وہاں ہی انہیں قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔

دن گزرے حالات خطرے کی گھنٹی بجانے لگے۔ ایک، دو، تین اور پھر رفتہ رفتہ گنتی بڑھنے لگی۔ چین کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ہمارے ائیرپورٹس سے کورونا کے مریض پہنچتے گئے، اور ملک میں داخل ہوتے گئے۔ صوبائی حکومت شور مچاتی رہی۔ لیکن وفاق ریوالونگ چیئر کے ساتھ سکون سے مزے لیتا رہا۔ کرسیاں سجتیں، چائے کا دور چلتا، میٹنگ کے منٹس بنتے اور ایک پریس ریلیز جاری ہو جاتا۔ کارکردگی یہی دکھائی جاتی رہی۔ تفتان پہ خیمہ بستی کا قرنطینہ بنایا گیا ہے جو کسی بھی وقت مسائل پیدا کر سکتا ہے، یہ خبریں آئیں۔

لیکن اس پہ توجہ دینے کے بجائے حکومتی وزیر، مشیر وضاحتیں دینے جلوہ گر ہوتے رہے۔ مشیر صحت نے دورہ کیا اور تفتان پہ حالات کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ لیکن وفاق سکون آور گولیاں لیے محو نیند رہا کہ سب اچھا جا رہا ہے اور تفتان میں ہے تو کیا ہوا، بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ہے تو کیا ہوا۔ ہمارے شہر تو محفوظ ہیں۔ صورتحال اور بگڑی کراچی میں مریض سامنے آنے لگے۔ صوبائی حکومت میدان میں آگئی۔ وفاق پہ انحصار کے بجائے کمر خود کس لی۔

اور کیا خوب کر گزرے کہ حیرانی ہوتی ہے، جس پیپلز پارٹی پہ ہم کرپشن کے الزام لگاتے ہیں اسی کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی مشینری نے خود کو سیسہ پلائی دیوار ثابت کر دیا۔ وفاق کی نیند شاید گہری تھی کہ جھنجھوڑنے کے باوجود بات ہوں ہاں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ کیا ہم جس تفتان کو صرف تفتان سمجھے بیٹھے تھے وہ تو ووہان بننا شروع ہو گیا۔ 14 دن کا قرنطینہ اور پھر سکھر لائے گئے زائرین، اور کورونا پازیٹو، رنگ اڑنا شروع ہو گئے۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے، بودی دلیلیں، بیوقوفانہ منطقیں سامنے آنے لگیں۔ ڈی جی خان اور پنجاب لائے گئے زائرین میں بھی کورونا کا شبہ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ بگڑتی بھلا کب سنورتی ہے۔ واویلا بلند ہوا، صوبائی حکومت سے سوال ہوا، جواب ملا ہمارے پاس تو سہولیات ہی ناکافی تھیں۔ صوبائی وزیر داخلہ سچ سنا گئے۔ وفاق کی طرف دیکھا گیا تو شرمندگی سے آنکھیں نہ مل پائیں۔ ایران سے زائرین واپسی، تفتان میں قرنطینہ، اور وہ بھی خیمہ بستی میں، سینکڑوں مریض اکٹھے، 14 دن بنا کسی ٹیسٹ کے، اور پھر صوبوں میں روانگی بنا حتمی رائے کے، وفاق کا کردار سامنے آتا رہا صرف سستی، کاہلی، کوتاہی، لیے ہوئے۔

پورے تفتان کو احسن طریقے سے قرنطینہ کر لینے کے بجائے پورے ملک کی سلامتی داؤ پہ لگا دی گئی۔ مشیر صحت یک دم ڈھیلے پڑ گئے۔ فیصلہ ساز پریشان ہو گئے۔ دوا تو دنیا کے پاس ابھی نہیں تو ہمارے پاس کہاں سے ہو گی، لیکن ہم ایک قدم اور جھک گئے کہ ہمارے پاس تو مریض سنبھالنے کو وسائل ہی نہیں، کیا کریں، مدد مدد پکارو۔ یوں وفاق سندھ حکومت سے بھی جلدی گھٹنے ٹیک گیا۔ اور پاکستان سے زیادہ کمزور ایران نے بھی آئی ایم ایف سے مدد مانگنے میں ایک مہینہ لگا دیا لیکن ہم اتنا وقت بھی نا نکال سکے اور پہلا خطاب ہی ہماری کمزوری ظاہر کر گیا۔

عوام سے پہلے تو خطاب کے دن طے ہوتے رہے۔ لیکن جب خطاب ہوا تو آپ اندازہ لگائیے کہ اس میں عوام کے لیے کیا تھا۔ خلاصہ صرف یہ کہ آپ احتیاط کریں، آپ پریشان نہ ہوں، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، وسائل بالکل نہیں ہیں، معیشت خطرے میں ہے، دیوالیہ نکل جائے گا، ہم کچھ نہیں کر سکتے، ٹیسٹ نہ کروائیں، بیماری ہو تو ٹیسٹ کروائیں، کھانسی کورنا نہیں، ہم کریں گے، ہم نے کرنا ہے، اٹلی، امریکہ میں ہم سے بدترین حالات ہیں۔ پورا خطاب ایک ناقد کی سوچ سے سنیے اور اس پورے خطاب میں سے امید نکال کر دکھائیے۔

ایک ایک لفظ کا جائزہ لیتے ہوئے اس میں سے حوصلہ نکال کے دکھائیے جو دکھایا گیا ہو۔ خطاب میں کیا ہو سکتا تھا۔ فیصلہ کر لیا ہے فلاں فلاں شہر قرنطینہ کر دیے گئے ہیں، رضاکاروں کی فورس تشکیل دے دی گئی ہے، اس مشکل میں گھبرائیں گے نہیں، عوام کا ساتھ چاہیے، مخیر حضرات ملک کی خاطر آگے بڑھیں، الگ ہسپتال اور قرنطینہ بنانے میں عوام مدد کریں، مخیر حضرات مدد کریں، دنیا کے ساتھ ہیں، اور میں آپ کی مدد سے پوری دنیا کو اس ناسور پہ قابو کر کے دکھاؤں گا، اپنا سرمایہ سب لگا دوں گا، میرے ساتھی اپنی دولت سب لگا کے ملک کو اس مشکل سے نکالیں گے، فلاں فلاں جگہ سے عوام کو سینیٹائزر اور ماسک مفت ملیں گے جس کی نگرانی حکومت خود کرئے گی، دی گئی ہیلپ لائن پہ ذخیرہ اندوزی کی کال آنے کے بیس منٹ کے اندر کارروائی ہو گی، اور ذخیرہ اندوزی پہ عمر قید کی سزا ہو گی، ملک کی خاطر تمام سیاسی پارٹیوں کو کورونا کے ساتھ جنگ میں مل بیٹھنے کی دعوت دیتا ہوں، وفاق سندھ کی ہر ممکن مدد کرئے گا، پانچ ارب کے ابتدائی فنڈ سے رقم مختص کر دی ہے، پیرا میڈیکل سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میرے یہ ہیروز میرا فخر ہیں، مشکل مرحلہ ہے لیکن خدا پہ یقین ہے کہ پاکستانی قوم کو اور مجھے یہ مشکل جھکا نہیں سکتی، خود آج سے ہی قرنطینہ سہولیات کا جائزہ لوں گا، کوئی وزیر دفتر نہیں بیٹھے گا، آگاہی کے لیے میدان عمل میں ہو گا، تحقیق کے اداروں کو اس وبا پہ تحقیق کے لیے فری ہینڈ دے دیا ہے، چین ماہرین کی ٹیم بھیج دی ہے، جائزہ لے کر پاکستان میں اقدامات ہوں گے، پورے ملک میں یونین کونسل کی سطح پر مفت کورونا ٹیسٹ ہوں گے، پرائیویٹ لیبز مفت ٹیسٹ کی سہولت دیں گی ورنہ پاکستان میں کام نہیں کر سکیں گے، تمام پرائیویٹ ہسپتال قرنطینہ بنائیں گے، ہر سرکاری ادارے کا ہسپتال قرنطینہ وارڈ بنائے گا، پورے پاکستان سے ممکن وسائل لگا دیں گے، لیکن یقین دلاتا ہوں، اس وبا کے جڑ سے اکھاڑ پھینکوں گا۔

لیکن شومئی قسمت کہ جذباتی قوم کو جذباتی کرنے کے لیے حقیقی تو دور جذباتی خطاب بھی نہیں کیا جا سکا۔ اور جیسے بس اتنا ہی کہا گیا ہوکہ، ”جاگدے رہنڑاں، ساڈے تے نا رہنڑاں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments