انسانیت: تباہی کے دہانے پر


جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کرونا وائرس دنیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ دنیا کے ستر فیصد ممالک اس جان لیوا مرض کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور اس لحاظ سے شاید متاثرہ افراد کی تعداد بھی کروڑوں میں جا سکتی ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلنے سے لے کر اب تک ڈھائی لاکھ افراد اس کا شکار بن چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چائنہ سے ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ بہت پہلے سے جانتے تھے کہ یہ عالمی وبا ہے اور اس کے سد باب کے لئے اقدامات بہت ضروری ہیں جبکہ ہر روز اس حوالے سے امریکی صدر کے بیانات میں تضادات بھی پائے گئے ہیں اور ان کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے اس وبا نے امریکہ میں بھی زور پکڑ لیا ہے۔ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سنتے ساتھ ہی کئی ہالی وڈ فلمیں ذہن میں آتی ہیں جن میں صرف چند ہی لوگ زندہ بچتے ہیں اور دنیا کی شکل بھی عجیب و غریب پیش کی جاتی ہے

کرونا وائرس کا موجد کون ہے اور یہ کیسے وجود میں آیا اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے اور بہت سی قیاس آرائیاں بھی زیر بحث ہیں لیکن اس وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی دنیا میں بے یقینی کی کیفیت اور خوف کی بناء پر جو فیصلے کیے جارہے ہیں وہ یقیناً تاریخ میں پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ انسان کو انسان سے اتنا خطرہ بھی ہوسکتا ہے یہ ناقابل فہم ہے۔ سب سے پہلے ملکوں کے آپس کے رابطے منقطع ہوئے پھر شہروں کے اور اب انسانوں سے رابطوں کو ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی جا رہی ہے۔

اس وبا سے عالمی معیشت کو دھچکا لگنے سمیت کاروباری نقصانات کا تخمینہ لگانا بھی فی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن اس مالیاتی خسارے سے نکلنے کے لئے یقیناً عرصہ دراز لگ سکتا ہے۔ ہر گزرتے لمحے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ کوئی بن دیکھا دشمن آپ کی جانب بڑھ رہا ہو جس کی شکل و صورت کا گمان کسی کو بھی نہیں اور اس خوف نے پوری دنیا کو ویران کر رکھا ہے۔

میڈیا پر چلتی خبروں میں اموات کی تعداد کی گنتی بے حساب جاری ہے ”کرونا وائرس کا ایک اور مریض سامنے آگیا“ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہلاکتوں کی خبریں دینے سے اس کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکتا ہو اور پھر سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کے تڑپتے مریضوں کی ویڈیوز وائرل کی جارہی ہیں ہلدی اور لہسن سے علاج بتائے جارہے ہیں پوری قوم ڈاکٹر بن چکی ہے حتیٰ کہ وائرس کی سینکڑوں علامات بھی دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس وجہ سے آج ایک دکاندار نے نوٹ پکڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بھائی نوٹ کو ٹیبل کے دراز میں پھینک دیں اس کے چہرے پر خوف دیکھ کہ یوں لگا کہ شاید وہ چاہتا ہی نہیں کہ کوئی گاہک دکان میں آئے اور نوٹ نہ پکڑنے کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ ”جناب لاہور میں بھی کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ایک دن میں دگنی ہوگئی ہے اور میرے ملازم کے ہاتھ پاؤں بھی لال سرخ ہورہے ہیں اور میں ویسے بھی دکان بند کر رہا تھا“۔ کیونکہ اب ہم ایک دوسرے کو انسان کی نظر سے نہیں بلکہ کرونا کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

اس خوف کی اور حد کیا ہوگی؟ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ میں چند دنوں میں کرونا وائرس کے پیشِ نظر اسلحہ اور ہتھیاروں کی خریداری میں ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اگر اس وائرس پر قابو نہ پایا جا سکا تو زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہتھیاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور پھر survival of the fittest کا قانون رائج ہو جائے۔ اقوام عالم کی کرونا وائرس سے نمٹنے کی کاوشیں مایوس کن ہیں اور احتیاطی تدابیر بھی ناکافی ہیں اگر سب کو قرنطینہ بھیج کر ہی اس وبا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے تو پھر پوری دنیا بھی بہت جلد قرنطینہ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments