’کرونا وائرس


ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پیار سے کوئی بات سمجھ نہیں آتی،

غالباً دو سال قبل جب حکومت نے ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا تو لوگ ہیلمٹ پہننے والوں کا نہ صرف مذاق اڑایا کرتے تھے بلکہ انہیں ڈرپوک بھی کہا جاتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ جب انہیں احساس ہوا کہ بات اب مامے چاچے کی ’کال‘ سے آگے نکل چکی ہے تو وہی نام نہاد با اختیار لوگ گھر میں بھی ہیلمٹ پہن کر گھومنے لگے۔

اب بھی کچھ ویسی ہی صورتحال ہے۔ ماسک پہن کر گھر سے باہر نکلیں تو لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی سنگین گناہ کے مرتکب ہو گئے ہوں۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں شمولیت سے معذرت کریں یا طے شدہ تاریخ تبدیل کریں تو ڈرپوک کہا جاتا ہے۔

اور تو اور کچھ ’دانشوروں‘ کا خیال ہے کہ احتیاط کرنا بالکل فضول ہے، کیونکہ ایک نا ایک دن تو دنیا سے جانا ہی ہے (تو کیوں نہ ابھی سب کو السلام علیکم کہا جائے ) ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے شوگر کے مریض کو مٹھائی کھلائی جائے اور یہ توقع بھی کی جائے کی بابا جی دا ایمان مضبوط ایہہ، ایہناں نو کجھ نہیں ہونا۔ جس طرح بخار یا کسی بھی بیماری کے علاج کے لئے دوائیں لی جاتی ہیں، مضر صحت کھانا کھانے سے گریز کیا جاتا ہے، بالکل اس طرح یہ بھی ایک بیماری ہے جس کی روک تھام کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے۔

ساری دنیا میں تقریباً دو لاکھ سے زائد لوگ اس مہلک بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ آج کی تاریخ تک صرف اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں تین ہزار سے زائد اموات کی اطلاع ہے۔ امریکا، کینڈا سمیت ساری دنیا میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ خدارا کسی کی باتوں میں آ کر اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی زندگیاں داؤ پر نہ لگائیں۔ ہر طرح کی تقاریب (خواہ وہ کسی عزیز کی شادی ہی کیوں نہ ہو) میں جانے سے گریز کریں۔ اگر زیادہ محبت ہے تو ’ایزی پیسہ‘ کے ذریعے سلامی بھیج دیں اس طرح یقیناً آپ کی کمی پوری ہو جائے گی۔

اپنا اور اپنے چاہنے والوں کا خیال رکھیں اور خدا سے رحم کی دعا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments