قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد


بر صغیر کی تقسیم کی طرح قیام پاکستان کے اسباب و محرکات ایک ایسا موضوع ہے جو اوائل دنوں سے سیاسی مفکرین اور محققین کے زیر بحث چلا آرہا ہے۔ جس طرح تقسیم ہند کے سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔ اسی طرح تحریک پاکستان کے مختلف محرکات اور اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ قیام پاکستان میں اساس کی حثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ دو قومی نظرئیے کی منطق سے کئی حلقے اتفاق نہیں رکھتے تھے مگر اس سے کسی کو احتلاف نہیں

کہ پاکستان اسی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے۔ ۔ اختلاف قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے چلا آرہا ہے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر دو نکتہ ہائے نظر ہیں۔ ایک نکتہ نظر کا دعوی ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا۔ جبکہ دوسرے نکتہ نظر کا موقف ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانان ہند کے سیاسی، ثقافتی، معاشی، مذہبی حقوق و مفادات اور تہذیبی شناخت کا تحفظ تھا۔ دوسرے الفاظ میں ایک کے مطابق پاکستان کا نصب العین ایک ”خالص مذہبی ریاست“ کا قیام تھا۔ جبکہ دوسرے کے نزدیک ایک ”مسلمان ریاست“ کی تشکیل اس کا مقصد تھا۔

دونوں نکتہ ہائے نظر والوں کے ہاں اپنے موقف کے حق میں اپنے اپنے دلائل ہیں۔

پہلے نکتہ نظر کے موئدین اپنے موقف کے دلائل علامہ اقبال کے افکار و تصورات، قائد اعظم کے بعض بیانات اور تحریک پاکستان کے دوران بعض مذہبی نوعیت کے نعروں کی بنیاد پر رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال ( جس کو تصور پاکستان کا خالق کہا جاتا ہے ) کے حوالے سے اس پہلے نکتہ نظر والوں کی دلیل یہ ہے کہ اقبال نے مسلم لیگ اجلاس الہ اباد 1930 میں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں ک لیے علحیدہ ریاست کا تصور اس لیے پیش کیا تھا تاکہ وہ اسلامی قوانین کے مطابق اپنا منفرد نظام قائم کریں

قائد اعظم کے خیالات کے سلسلے میں وہ ان کے بعض بیانات کے حوالے دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے مطالبہ پاکستان اس لیے کیا ہے جہاں وہ۔ اپنی طرز زندگی اور اپنی تہذیبی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ ( سرحد مسلم لیگ۔ کانفرس 21 نومبر 1945 )

اگست 1941 کو عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کے اس سوال کے جواب میں کہ مذہب اور مذہبی ریاست کے لازمی عناصر کیا ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ”دوسرے الفاظ میں اسلامی ریاست قرآنی اصولوں اور احکامات کے نفاذ کا ایک ذریعہ ہے“

اسی طرح اسی نکتہ نظر کے حامی اپنے موقف کے حق میں تحریک پاکستان کے دوران مسلم۔ لیگ کا نعرہ۔ ”پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ“ کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام ہی تھا۔

دوسرے نکتہ نظر ( سیکولر مسلمان ریاست) کے حامیوں کے ہاں اپنے دلائل ہیں۔

یہ بھی قائد اعظم کے مختلف بیانات اور تقریروں کے حوالوں کے ساتھ بعض دوسرے دلائل سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہ قائد اعظم کا مقصد کسی تھیو کریٹک ( مذہبی ) ریاست کا قیام ہر گز نہ تھا۔

ان کے بعض دلائل درجہ ذیل ہیں۔

1۔ اگر پاکستان واقعی مذہبی ریاست کے طور پر بنایا جا رہا تھا تو اس وقت کے مذہبی جماعتوں اور بیشتر علماء نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ بلکہ بعض نے تو کفر کے فتوی بھی لگائے تھے۔

2۔ تحریک پاکستان کے قائدین عقیدا مسلمان تھے مگر سیاسی لحاظ سے سیکولر اور روشن خیال سوچ کے افراد تھے۔

3۔ 11 اگست 1947 کی قانون ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے اپنی مشہور تقریر میں واضح کیا تھا کہ ریاستی معامالات کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔

4۔ قائد اعظم نے پاکستان کا پہلا وزیر قانوں ایک ہندو جوگیندر ناتھ منڈل کو مقرر کیا تھا۔ اگر اس کا مطمع نظر پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا ہوتا تو اس کی جگہ کسی مذہبی عالم کی تقرری کرتا۔

مذکورہ دلائل کے علاوہ اس نکتہ نظر کے حامی پہلے نکتہ نظر والوں کے دلائل کا رد جوابی دلائل سے کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں علامہ اقبال کے تصور کے متعلق ان کا موقف ہے۔ کہ بلا شبہ علامہ اقبال نے اسلامی ریاست کی بات کی تھی تاہم اگر اس کو ان کے افکار اور فلسفہ کے صحیح تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ہر گز تھیوروکریٹیک ریاست کا تصور نہ تھا۔

اقبال نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے میں ایک ایسی علحیدہ ریاست کا تصور پیش کیا تھا جو اسلامی اصولوں اور قوانین کو جدید تصورات اور تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نظام پر استوار ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی ریاست مولویانہ تصور کی مذہبی ریاست نہیں ہو سکتی تھی۔

قائد اعظم کے بعض تقریروں اور بیانات، (جن میں انہوں نے پاکستان کے دستور اور نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا عندیہ دیا تھا ) کے بارے اس دوسرے نکتہ نظر والوں کا موقف یہ ہے کہ اسلام کے اعلی اصولوں اور ان کی اہمیت او افادیت کو قائد اعظم نے اپنے کئی بیانات میں یقینا اجاگر کیا ہے تاہم اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ وہ تھیوروکرسی کے حامی تھے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اقبال کی طرح قائد اعظم کے اس نوع کے بیانات کو بھی سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ قائد اعظم کا سیاسی اپروچ سیکولر اور روشن خیال نوعیت کا تھا۔

( سیکولر کا مطلب مذہب مخالف نہیں جس کو عام طور پر قدامت پرست مذہبی طبقے کے پروپیگنڈے کے تحت سمجھا جاتا ہے )

ان کے مطابق قائد اعظم کی بہت سی تقاریر اور بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا تصور پاکستان ایک جدید لبرل ریاست تھا۔

مذکورہ دلائل کے علاوہ اس نکتہ نظر کے موئدین اپنے موقف کے حق میں تحریک پاکستان کے سیاسی پس منظر سے یہ دلیل دیتے ہیں۔ کہ۔

علامہ اقبال نے اپنا حطبہ 1930 میں دیا تھا۔ جبکہ جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ اگلے پورے 10 سال تک آل انڈیا کانگرس اور حکومت برطانیہ کے ساتھ کسی ایسی نوعیت کا انتظام کرنے کے لیے کوشاں رہی جس میں متحدہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی آئینی ضمانت ہو۔ تمام تر کوشش کے باوجود جب مسئلہ ہوتا حل نظرنہ آیا تو 23 مارچ 1940 کو قراداد لاہور ( پاکستان ) منظور کرلی۔

جس میں کہا گیا کہ مسلم۔ لیگ اپنے تجربات کے بنا اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے۔ کہ مسلمانوں کے سیاسی مسائل اور مفادات کا واحد حل اپنے لیے علحیدہ ریاست کا قیام ہے۔ اس موقع پر قائد اعظم نے بلاشبہ دو قومی نظرئیے کی بھر پور مدلل وضاحت کی تاہم اس سے ہر گز یہ مترشح نہ تھا کہ مطلوبہ ریاست کا مقصد اسلام تھا۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اگر کانگرس مسلم لیگ کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے سلسلے میں تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرتی تو لیگ کو قراداد لاہور منظور کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔

اسی موقف کے حامی اس دلیل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ اگر چہ مسلم لیگ نے قراداد لاہور منظور تو کر لیا تھا مگر چونکہ سیاست مختلف امکانات کا نام ہے اور سیاست دان کئی متبادل لئے رکھتے ہیں۔ اس طرح جناح اور لیگ کے پاس بھی قومی مفادات کے حوالے سے کئی متبادل تھے۔ جن میں ایک اور آخری آپشن تقسیم ہند کا تھا۔ تاہم یہ آخری آپشن بھی بے لچک نہ تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1940 کے قرارداد کے بعد بھی جناح نے کانگرس اور برطانوی حکومت کے ساتھ گفت و شنید جاری رکھی تاکہ مسئلہ ہند کے کسی قابل قبول حل کی راہ نکالی جا سکے۔

اسی طرح 1946 میں کیبینٹ مشن پلان کی تجویز کردہ حل کو قائد اعظم اور مسلم لیگ نے منظور کر لیا تھا۔ حالانکہ اس میں مطالبہ پاکستان تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق یا کنفیڈریشن تجویز کیا گیا تھا۔ کیبینٹ پلان کو قبول کرنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مکمل علحیدہ آزاد ریاست کا قیام لیگ کا بے لچک مطالبہ نہ تھا۔ چونکہ لیگ کو پلان میں مسلمانوں کے جملہ حقوق کے تحفظ کا حصول نظر آتا تھا اس لیے اس کو فی الفور منظور کیا۔

اگر اس پلان کو پنڈت نہرو اور پاٹیل کی ضد اور کانگرس کا غیر جمہوری رویہ سبوتاژ نہ کرتا تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔

ان کے بقول کیبینٹ مشن پلان کے حوالے سے قائد اعظم کا مفاہمانہ رویہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ایک مکمل آزاد مذہبی ریاست اس اور لیگ کا بنیادی اور آخری مقصد ہوتا تو اس حوالے سے کسی متبادل پر کوئی لچک دکھانے کا مظاہرہ نہ کرتا۔

تحریک پاکستان کے دوران بعض مذہبی نوعیت کے نعروں کے متعلق اس نکتہ نظر کے موئدین کی جوابی دلیل یہ ہے کہ ایک تو یہ لیگ کا باضابطہ نعرہ نہ تھا۔

یہ لیگ کے عام کارکنوں اور طالب علموں نے لگایا تھا۔ دوسرا یہ کہ مسلم عوام کو متحرک اور متحد رکھنے کے لیے اس کی حثیت صرف ایک سیاسی نعرے کی تھی۔ جبکہ تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی ثقافتی اور مذہبی مفادات کے تحفظ کا حصول تھا اور یہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر چلائی جا رہی تھی۔ اس لیے اس کی کامیابی کے لیے مسلمانوں کے اتحاد کے اعلی مقصد کے پیش نظر اس نوع کا نعرہ کچھ زیادہ غلط اقدام نہ تھا۔

پاکستان کے آئین اور سیاسی نظام میں اسلامی اصولوں (سماجی مساوات، معاشی عدل، مذہبی رواداری، جمہوری سپرٹ ) کے بارے قائد اعظم کے تائیدی بیانات کے حوالے سے اس نکتہ نظر کے موئدین کا موقف یہ ہے۔ کہ قائد اعظم ایک سیکولر ( روشن خیال ) ذہن والاسیاست دان تھا تاہم اس کے ساتھ وہ ایک مسلمان بھی تھا۔ ان کو پارسائی کا دعوی نہ تھا مگر ایک سیدھے مسلمان کی حثیت سے مسلمانان ہند کے حقوق کے لیے ابتداء ہی سے پورے خلوص کے ساتھ جدوجہد کر رہا تھا۔ اسی حثیت میں وہ مسلمانوں کو علحیدہ قوم اور ہندوؤں سے ان کے مفادات الگ سمجھتا تھا اور دو قومی نظرئیے کا علم بردار تھا۔ اسلام کے اعلی اقدار کے متعلق قائد کے خیالات سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا ہے۔

اس نکتہ نظر کے موئدین کا موقف ہے کہ قائد کا اپروچ ان معنوں میں سیکولر تھا۔ کہ اس کے تصور پاکستان میں مذہبیت ( ملا ازم ) کے لیے گنجائش نہیں تھی مگر ایک مسلمان اور متوازن اور حقیقیت پسند مدبر کی حثیت سے وہ اخلاقی و روحانی اقدار کی اہمیت اور اسلام کے اساسی اصولوں کی افادیت کے پیش نظر ان کا دل سے قائل تھا۔ اور اسی بنا وہ پاکستان کے نظام میں مذہب کی بجائے دینی ( روحانی ) اسپرٹ کو بروئے کار لانے کے حق میں تھا۔

بیشتر روشن خیال اہل فکر اس نکتہ نظر کے موئد ہیں۔ ان کے خیال میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کا تصور پاکستان یہی تھا کہ دین کے اعلی اخلاقی روحانی اقدار اور بنیادی سماجی اور معاشی اصولوں سے رہنمائی لی جائے مگر اس کی قیادت تنگ نطر کٹ ملاوں کے ہاتھ میں قطعاً نہ ہو۔

پاکستان کی، بوجوہ ’ایک عمومی بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں کے عام ذہنوں پر روایتی مذہبی طبقے نے اجاراداری قائم کر لی ہے۔ اور یوں بیشتر مسلمانوں کی سوچ اس طرح ڈھال گئی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی سمجھ بوجھ اور تشریح کے لیے اس روایتی مذہبی طبقے کو ہی قطعی اتھارٹی سمجھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ایک دوسری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ آئین سازی کی تکمیل سے قبل قائد اعظم انتقال کر گئے اور اسی باعث آئین سازی کے عمل پر اس وقت کے روایتی مذہبی رہنما حاوی ہو گئے۔ جن کے دباؤ کے تحت قرارداد مقاصد کو ایسی صورت میں منظور کرایا گیا جس کے بعد سے مذہبی اور حکمران طبقے اپنے ذاتی یا وقتی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوسرے نکتہ نطر کے مذکورہ ساری بحث کا خلاصہ یا نچوڑ مختصرا یہ ہے۔ کہ

1۔ پاکستان کا قیام بنیادی طور پر مسلمانان ہند کے حقوق اور مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے آخری آپشن کے طور عمل میں آیا۔ اس سلسلے میں اسلام بیشتر ایک تہذیبی عامل کی حثیت سے ایک محرک رہا

2۔ مذہب کا کٹر مولویانہ فہم و تصور علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پیش نظر نہ تھا۔

3۔ قائد اعظم اپنے سیکولر اپروچ کے ساتھ مذہب کے بجائے دین کے اعلی اقدار و اخلاقی روایات کی اہمیت و افادیت کا بھی حلوص دل سے قائل تھا۔

3۔ قائد اعظم اگر کچھ سال مزید زندہ رہتے تو قوی امید ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی خدا داد صلاحیت، تدبر، حقیقت پسندی اور خلوص کی بنیاد پر پاکستان کے لیے ایک ایسا دستوری اور انتظام نظام مرتب کرواتے جو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ دین کے اعلی اقدار و روایات کا متوازن امتزاج ہوتا۔ اور یوں پاکستان ایک ایسی جدید فلاحی مسلمان ریاست بنتا جو روشن خیال بھی ہوتا اور یہاں کے کلچر اور اخلاقی۔ روحانی اقدار کا امین بھی ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments