ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا


موسم بہار کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوب انجوائے کیا جاتا ہے۔ سردیوں کے بعد شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا انعقاد دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔ پہلے تو بسنت اور جشن بہاراں کے سلسلے میں مختلف سرگرمیوں زیادہ ہوتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بسنت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ویسے ہمارے ہاں ہر مسئلے کا حل ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے کیا جاتا ہے۔ جہاں اس موسم میں لوگ خوش ہوتے ہیں وہیں اسی موسم میں جڑواں شہر (اسلام آباد /راولپنڈی) کے بہت سے لوگ پولن الرجی کا شکار ہونے کی وجہ سے شہر سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کی طرح اس سال بھی میں نے فیصلہ کیا کہ سنگین صورتحال سے پیشتر اس شہر سے دور نکل جاؤں، لہذا لاہور پہنچ گیا۔ مگر اس سال معاملہ پہلے سے ذرا مختلف ہے کیونکہ انہی دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ چین کے علاقے وہان سے شروع ہونے والے اس وبائی مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور دنیا کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ باقی ممالک اس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ علاج بھی کر رہے ہیں مگر ہمارے ہاں معاملات ذرا فرق نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً پہلے تو معاملے کو سیریس نہیں لیا جاتا اور اس کی سنگینی سے نمٹنے کی بجائے پردہ پوشی کی جاتی ہے اور جب حالات حد سے تجاوز کر جائیں تو حکومتی ادارے ذمہ داری کا تعین نہیں کر پاتے اور ملک میں افراتفری پھیلا دی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ ملک کے غریب اور لاچار طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے سو یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔

دوسری جانب عوام بھی حکومتی اعلانات کو اتنا سیریس نہیں لیتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ سرکاری اداروں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھانا لہٰذا عوام از خود نوٹس کے تحت اپنے فیصلے خود کرتے رہتے ہیں۔ سو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے جو کچھ یہاں ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹ بند، ائیر پورٹ ویران اور کاروباری مراکز بند ہیں مگر ہمارے امیر طبقہ پہلے سے زیادہ متحرک ہوکر ذخیرہ اندوزی کرنے میں مصروف ہیں۔ جبکہ مزور روز کی روٹی کے لئے فکر مند ہے۔

ویسے تو میرا لاہور آنا جانا لگا رہتا ہے مگر اس بار تقریباً ایک سال کے بعد آیا تو سوچا گوجرانوالہ پرانے دوستوں سے ملاقات کی جائے۔ گوجرانوالہ میں میرا لڑکپن اور جوانی گزری ہے اور بہت سی حسین اور تلخ یادیں وابستہ ہیں سوچا پولن الرجی سے بچاؤ کے بہانے پرانے زمانے کو یاد کیا جائے سو میں نے ندیم جنجوعہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے حامی بھر لی۔ جنجوعہ صاحب بڑے نفیس اور پڑھے لکھے انسان ہیں اور میرے استاد بھی رہے ہیں۔ (ایم بی اے ) کے دوران بزنس کمیونیکیشن پڑھنے کا موقع ملا۔ ویسے تو پڑھائی کے دوران ندیم صاحب سے ایک سمسٹر ہی پڑھا تھا لیکن تعلق پورے عزت واحترام کے ساتھ آج بھی قائم ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ بطور بزنس مین بھی شہر میں ان کی ایک پہچان ہے۔ اسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد سے زیادہ تر سفر موٹر وے کے ذریعے ہوتا تھا لہذا جی ٹی روڈ پر جانے کا اتفاق کم ہوا۔

دو دہائیاں قبل ہم اکثر گوجرانوالہ سے لاہور آتے جاتے رہتے تھے مگر اب جب لاہور سے گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر سفر شروع کیا تو اس کی مخدوش حالت دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔ شاید عوام کو سہولیات فراہم کرنا حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یقین کریں کالا شاہ کاکو موٹر وے انٹر چینج اترنے کے بعد سے گوجرانوالہ تک سڑک اتنی خراب تھی کہ اس کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ البتہ گوجرانوالہ پہنچ کر دیکھا تو کچھ بہتری نظر آئی۔

سننے میں آیا کہ یہاں پر ایم این اے خرم دستگیر خان نے ترقیاتی کاموں میں کافی دلچسپی لی تھی اور اندرون شہر اور داخلی و خارجی راستوں پر فلائی اوور اور انڈر پاس بنائے گئے تاکہ شہریوں کی مشکلات کم ہوسکیں۔ ہمارے وقتوں میں شہر میں ڈی سی روڑ اور جی ٹی روڈ کو ملانے کے لئے ایک ہی انڈر پاس ہوا کرتا تھا جہاں بارش کے بعد کئی روز تک جوہڑ کا سماں بنا رہتا۔ اب سننے میں آیا ہے کہ ویسا ماحول نہیں ہے۔ گوجرانوالہ پہنچتے ہی مَیں نے پرانے دوستوں کے واٹس اپ گروپ میں اپنی آمد کی خبر ڈالی اور فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ یاور لودھی نے کال بیک کی اور یوں ہم نے برسوں بعد بیٹھ کر سکول اور کالج کے کچھ واقعات کا ذکر کیا۔ کالج کے کچھ عرصہ بعد ہی یاور پر مذہبی رنگ آگیا تھا لیکن اب تو مکمل پگڑی اور بڑی داڑھی کے ساتھ کسی امام مسجد سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

منصور مرزا نے شام کو ملنے کا وعدہ کیا مگر وفا نہ ہوسکا۔ کچھ اور دوستوں کے ساتھ رابطہ کرنا بھول گیا جس کا احساس فیس بک چوہدری احسان نے گلہ کرکے کیا تو فون پر دوبارہ ملنے کے وعدے پر معذرت قبول کر لی۔ واٹس اپ گروپ میں برطانیہ میں بیٹھے ندیم نے گروپ میں ہماری ملاقات کو خوشگوار قرار دیا۔ اس سے قبل گزشتہ سال امریکہ کے شہر واشنگٹن میں برسوں بعد میری ملاقات ہم سب کے دل عزیز عبدالعزیز سے بھی ہوئی تھی۔ عزیز کے ساتھ میرا بہت قریبی واسطہ رہا اور برسوں کے بعد سات سمندر پار پھر سے ملکر بہت اچھا لگا۔

عزیز کے اندر ایک اور خوبی یہ بھی تھی۔ یہ ہمارے دور کا امیتابھ بچن ہوا کرتا تھا اور ہر خوبصورت لڑکی سے اس کی دوستی ہوتی تھی اور میرے جیسے معمولی شکل و صورت والوں کو اس سے خواہ مخواہ کی جیلسی ہوتی تھی۔ اب امریکہ کے حالات خدا بہتر جانتا ہے۔ خدا خوش رکھے۔ باقی دوستوں نے شاید کرونا بچاؤ مہم کے تحت خلوت میں رہنا پسند کیا یا ذاتی مصروفیات آڑے آ گئی۔ وقت اور حالات نے ہمیں اس قدر قید کر رکھا ہے کہ ملنا ملانا نصیب سے ہوتا ہے لیکن ایسے میں اگر پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جائے تو زندگی میں رمق باقی رہتی ہے۔ باقی زندگی میں کام تو جاری رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments