دیہاڑی دار کو گاہک اور کام کہاں سے ملے گا؟


وبا کے دنوں میں قوم سے وزیر اعظم کے دوسرے خطاب میں دو مرکزی نکتے شامل ہیں۔ اول یہ کہ لاک ڈاؤن نہیں ہو گا کہ 25 فیصد دیہاڑی دار کام نہ ملنے پر بھوک سے مر جائیں گے۔ ثانیاً یہ کہ جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں وہ سیلف آئسولیشن یعنی رضاکارانہ طور پر خود کو گھروں تک محدود کر لیں۔

حسب معمول اس ”حکمت عملی“ کے حق اور مخالفت میں سوشلستان میں بات ہو رہی ہے۔ حق میں بولنے والوں کے وہی دلائل ہیں کہ ہم غریب قوم ہیں، افورڈ نہیں کر سکتے، غریب مر جائیں گے، ہم چین نہیں ہمارے پاس تو پیسے نہیں وغیرہ وغیرہ۔ کچھ احباب تو لاک ڈاؤن کی حمایت کرنے والوں کو بے حسی کے طعنے بھی دے رہے ہیں اور غریب دیہاڑی داروں کے نکتہ نظر سے سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں۔

ہم نے یوں سوچنے کی کوشش کی تو چند سوال ذہن میں در آئے، سوچا کامن سینس کو قرنطینے میں بھیج کر لاک ڈاؤن نہ کرنے کے حامیوں سے پوچھا جائے شاید ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہو۔

⁦تو عرض یہ ہے کہ اگر 75 فیصد صاحب استطاعت لوگ درست فیصلہ کرتے ہوئے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے تو چھلی بیچنے والے، بوٹ پالش والے، بیلچہ کرنڈی والے، سفیدی کرنے والے، چھان بورا اکٹھا کرنے والے دیہاڑی داروں کا گاہک کون ہو گا؟ کیا آئسولیشن میں جانے والے 75 فیصد ان 25 فیصد کو گھر بلائیں گے؟ کیا دیہاڑی دار ایسی ناگزیر خدمات فراہم کرتے ہیں جنہیں خریدنے کے لیے وائرس کے ڈر کے باوجود لوگ باہر نکلیں گے؟

⁦اگر آپ کو ان سوالات کے جواب نہیں معلوم تو خود تصور کریں کہ آپ صاحب استطاعت ہیں اور کرونے کے ڈر سے گھر بیٹھ گئے ہیں تو اس ”فرصت“ کو آپ کسی فٹ پاتھ پر بیٹھے چار مزدور گھر لا کر سفیدی کرانے میں استعمال کریں گے؟

⁦اگر نہیں تو کیا بنی گالے کے جن ان دیہاڑی داروں سے خریداری کریں گے اور انہیں مزدوری دیں گے؟ خود تو یہ ایک دوسرے سے کچھ خریدنے جوگے ہیں نہیں۔ خالی گلیوں اور مارکیٹوں میں کام کی تلاش میں پھرتے ہوئے ”بارٹر سسٹم“ کے تحت ایک دوسرے کو کرونا منتقل کرنے کے خطرے کی زد میں ہی رہیں گے۔

خدارا کوئی صاحبان اختیار و اقتدار کو سمجھائے کہ دنیا بھر کے تجربات سامنے ہیں۔ لاک ڈاؤن نہیں کرو گے تو وائرس کے پھیل جانے کی صورت میں خدانخواستہ ایسی صورت بن سکتی ہے جس میں جو بچ جائے گا اس کا ویسے نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔

دنیا بھر میں پھیلے اس خوف کے عالم میں لاک ڈاؤن نہ کرنے سے بھی معیشت میں کوئی حیات بخش بہتری نہیں آنی۔ ابھی لاک ڈاؤن نہیں ہوا لیکن شہروں میں معاشی سرگرمی میں واضح طور پر کمی ہو گئی ہے۔

مان لیا کہ ہم چین نہیں لیکن ہم اٹلی بھی تو نہیں۔ اٹلی میں گھر بیٹھے مزدوروں کی کفالت ہو رہی ہے جن میں پاکستانی تارکین وطن بھی ہیں۔ آپ ان کی کفالت سے گھبرا رہے ہیں جو ابھی صحت مند ہیں۔ کل بیمار پڑ گئے تو کیسے ان کو سنبھالیں گے؟

جیئے مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی جو اپنی بساط بھر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ جیئے الخدمت فاؤنڈیشن جس کے رضاکار ملک بھر میں چیلنج کے مقابلے میں پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جئیں وہ ان گنت پاکستانی جو انفرادی طور پر خیر کے اس کام میں جتے ہوئے ہیں۔ اور جئیں وہ ان گنت کمیونٹی اور ملکی سطح کی تنظیمیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروف کار ہیں۔

یہ سب جیئیں تو دوسری طرف شرم سے ڈوب مریں وہ تاجر جنہوں نے دوائیں، ماسک، سینی ٹائزر اور دیگر اشیا ذخیرہ کیں، شرم سے ڈوب مریں وہ اہلکار اور حکام جنہوں نے معلومات چھپائیں اور اصل صورت حال کی درست عکاسی نہیں کی۔ شرم سے ڈوب مریں وہ جذبات فروش جو مذہبی جذبات کو ابھار کر آئسولیشن کی حکومتی اپیلوں کے خلاف ماحول بنا رہے ہیں۔ شرم سے ڈوب مریں وہ حکمران جن کی لاف زنی اور بڑھک بازی ختم نہیں ہوتی لیکن اجتماعی بقا کی اس جنگ میں ایک اہم حکم لاگو نہیں کروا سکتے۔ اور شرم سے ڈوب مریں وہ گیدڑ مزاج ”لیڈر“ جو پوری قوم کو گیدڑ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ ہنگامی اور غیر معمولی صورت حال ہے۔ اس میں ہنگامی اور غیر معمولی اقدامات اور فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ اس وقت واحد حل صرف ناداروں اور معاشی کمزور طبقات کی کفالت کرنے اور ملک بند کرنے میں ہے۔ خدا کی قسم یہ قوم اس کفالت کو تیار ہے، کر رہی ہے اور کرے گی۔ اگر یہ قوم ناکام ہوئی تو گیدڑ مزاج لیڈروں کے ہاتھوں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments