کبوتروں کے پوٹے اور پیر صاحب کی روٹی بوٹی


رنگ دار اونچی دستار سجائے، آرام دہ تخت پر براجمان، گلاب کے پھولوں کے ہار گردن میں ڈالے، آلہ شیطان (مائک ) دہان مبارک کے عنقریب رکھے، مریدوں کے جھنڈ سامنے فرش پر اور حضرت گویا عرش پر۔ عشاق دہان مبارک سے جھڑنے والے پھولوں کی خوشبو دامن میں سمیٹنے کے لئے تیار و بے قرار۔ حضرت کا دہان وا ہوا۔ کھنگارتے بلکہ چنگاڑتے ہوئے غریب دھاڑی داروں کو مژدہ جاں فزاں سنایا۔ کرونا ویرس (وائرس نہیں ویرس ) کا الہامی علاج کبوتروں کے پوٹوں میں اور وہ بھی تصدیق شدہ۔ پھر خبر دی کہ جہاں جہاں لوگ وضو کررہے ہیں وہاں ان کا کرونا ویرس ختم ہو رہا ہے۔ ذیل میں دیے گئے لنک پر حضرت کے ارشادات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=EEXJpPcsX64

واہ حضرت واہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آپ نے جما دیا۔ آپ جیسے نابغے کو واقعی سلام۔ واقعی قابل رشک ہیں یہ حضرت جن کو اس قدر سادہ لوح مرید عطا ہوئے ہیں کہ جن کے لیے دین بھی حضرت دنیا بھی حضرت۔ ہر بیماری کا علاج بھی حضرت کے ملفوظات، ہر مصیبت کی نجات بھی ممدوح کے ارشادات۔

رسالت مآب ﷺ نے فرمایا العلم علمان علم الادیان و علم الابدان۔ کہ علم کی دو ہی بڑی کیٹیگریز ہیں۔ دین کا علم اور اجسام کا علم۔ دین کے علم میں عبادات، اخلاقیات، روحانیت، عقائد، فرائض، اعمال، اقدار الغرض سب شامل۔ اور اجسام کے علم میں طب، تمام تر میڈیکل، تمام تر سائنس، علمی ترقی، جدید تحقیقات وغیرہ سب شامل۔

سرور کائنات ﷺنے کہیں بھی ان کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر بیان کیا نہ سمجھا۔ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ چل کر نوع انسانی کی بقا، نشو نما، اوربہبود کے لئے کارگر ضرور ہیں۔

ہم دونوں سے بے بہرہ ہو چکے۔ سائنسی علوم اور جدید تحقیقات کو جبہ پوش گدی نشین اپنے کاروبار میں مداخلت سمجھتا ہے۔ ا س لئے ہر ترقی ہر ایجاد کو پہلے تو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا۔ اپنی جہالت کو علم کل اور علم کو جہالت قرار دیتا نظر آتا ہے۔ جب علم جہالت کو کچلتا ہوا اگلی منزلوں کی طرف رواں ہوتا ہے تو پھر یہی جبہ پوش سینکڑوں، ہزارو ں کی منزلیں کھوٹی کرنے کے بعد لولا لنگڑا بھاگتا نظر آتا ہے۔ اپنے سر پر پڑتی ہے تو اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال کا رخ کرتا ہے جب کہ مریدوں کو کبوتروں کے پوٹے کھلانے کی تبلیغ کرتا ہے۔

اعتراض یہ نہیں علاج کے لئے کبوتروں کے پوٹے کیوں بتائے۔ علاج کسی بھی چیز میں ہوسکتا ہے۔ کسی دوا کسی خوارک میں، کسی خاص علاقے کی جڑی بوٹیوں میں۔ کہیں بھی۔ لیکن فی الوقت تمام تر معلوم ذرائع اور تمام تر ترقی کے باوجود انسان کو یہ علاج معلوم نہیں ہو رہا۔ اس وقت دنیا میں لاکھوں مریض اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہو چکے۔ پاکستان میں یہ تعداد سات سو تک پہنچ چکی۔

اگر واقعی آپ کا علاج الہامی ہے اور خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپ اتنی تحدی سے اس کی تشہیر کر رہے ہیں تو پھر باہر آئیے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ تڑپتی انسانیت کے مسیحا بن جائیں۔ کسی ایک قرنطینہ کیمپ میں تشریف لے جائیں اور با برکت ہاتھوں سے دربار کے کبوتروں کے پوٹے دعا خاص کر کے اس موذی مرض میں مبتلا مریضوں کو دیں۔ موت کے منہ میں جاتے انسانوں کو بچا لائیں۔ پاکستانی قوم کیا پوری دنیا آپ کو ہیرو مان لے گی۔ آپ کے قدموں میں دنیا جہاں کے کبوتر ڈھیر کردئے جائیں گے۔ اس عظیم خدمت انسانیت پر امن کا نوبل انعام یقیناً آپ کے قدموں پر نچھاور کر دیا جائے گا۔ رہتی دنیا تک آپ ایک عظیم انسان ایک ہمدرد ایک عظیم دیوتا کے طور پر جانے جائیں گے۔

لیکن اگر ایسا کچھ نہیں اور یقیناً کچھ نہیں ہے تو ایسی بونگیاں ما رکر صرف اپنی روٹیاں قائم رکھنے کی خاطر غریب اور جاہل عوام کو تباہی کی طرف مت دھکیلیں۔ ان کی تربیت کریں۔ ان کو سمجھائیں کی جب تک علاج ممکن نہیں احتیاط کریں۔ خود بھی بچیں اور اپنے پیاروں کو بھی بچائیں۔ علاج سنت انبیا ہے۔ اور متعدی اور وبائی امراض سے بچنے کی اختیاطی تدابیر اختیار کرنا مذہب اور ایمان کے خلاف نہیں۔ بلکہ انسانی جان کو بچانا اولین فرائض میں شامل ہے۔ وہ جان آپ کی اپنی ہو یا کسی دوسرے کی۔

لیکن افسوس کہ اس وقت یہ ایک مزاج بن چکا ہے۔ اوپر دی جانے والی مثال صرف بطور نمونہ ہے ورنہ ایسے نمونے گلی کوچوں میں بھرے پڑے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ جہالت واقعی کسی کی میراث نہیں، آج ان کے گھر کی لونڈی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments