کورونا وائرس: سنسان گھڑی سخت کڑی ہے


ہر بحران اور آفت کے زمانے میں ایک قوم کے طور پر ہمارا رویہ ہمیشہ عجیب بلکہ مضحکہ خیز سا ہوتا ہے۔ غیر ضروری بحثیں، لایعنی توہمات اور بے مغز تبصرہ آرائی شاید بحثیت قوم ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہیں۔ اس میں شاید قوم کو بھی زیادہ دوش نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہاں قوم بنانے پر کب کس نے توجہ دی کہ ہم اس قوم سے توقع کریں کہ ہنگامی حالات میں ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کریں۔ سات عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط آزادی کے دوران اس ملک میں عجیب و غریب ڈھونگ رچائے گئے اور یہاں ریاستی بندوبست اور ملکی انتظام کو مداریوں کے بندر تماشے کی طرح چلایا گیا۔

آج کورونا وائرس نے تباہی و بربادی کے ڈیرے اقوام عالم میں ڈال رکھے ہیں۔ پاکستان بھی اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔ بدقسمتی سے ہر آنے والے دن میں پاکستان میں اس وبا کے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہم جیسے ملک تو اس وبا کے سامنے اس لیے زیادہ بے بس و مجبور نظر آتے ہیں کہ مادی وسائل کی کمیابی جہاں اس وبا سے لڑنے کے آڑے آ رہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ملک میں صحت کا نظام بہت ہی کمزور بنیادوں پر استوار ہے۔

اس ملک میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا اس میں ماضی اور حال کی سب حکومتیں شریک جرم ہیں۔ ہر سال قومی آمدنی کا ایک دو فیصد مختص کر کے ہماری حکومتیں صحت و تعلیم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جاتی ہیں۔ اج کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ہمارا صحت کا نظام خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہا ہے۔ اب ایک بدترین صحت کے نظام کی وجہ سے اگر خاکم بدہن کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اچانک سے بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے تو یہ صحت کا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔

اس بدترین منظر نامے سے بچنے کے لیے حکومت، طبی ماہرین اور ادارے بار بار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دیتے رہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مختلف اقدامات کے ذریعے لوگوں کے اکٹھ کی حوصلہ شکنی چاہی اور لوگوں کو پر ہجوم جگہوں پر جانے سے پرہیز کی ہدایات جاری کیں۔ تاہم یہ قوم بھی ایسی عاقبت نا اندیش ٹھہری کہ ان کی حفاظت کے لیے ان تمام حکومتی ہدایات اور اقدامات کو انہوں نے پر کاہ حیثیت نہیں دی اور ان کا ایسے ٹھٹھا مذاق اڑایا جیسے کوئی موج مستی ہو رہی ہو۔

ہاتھ ملانے سے پرہیز پر عجیب عجیب پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ماہرین طب کی ہدایات اور تجاویز کو لائق اعتنا نہ سمجھا اور ہر ایک خود ہی حکیم حاذق بن کر میدان میں کود پڑا۔ سماجی میڈیا پر طبی نسخوں کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جس میں ہر شخص ماہر صحت بن کر کورونا وائرس کی وبا سے شفایاب کے نسخے پھیلا رہا ہے۔ حکومت نے لوگوں کو گھروں تک محدود ہونے کی نصیحت اور تاکید بارہا کی لیکن لوگوں نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ ان پر قطعاً کان نہیں دھرنا۔ ہم دنیا میں واحد مسلم اکثریتی ملک نہیں ہمارے علاوہ پچاس سے زائد مسلم ممالک خطہ ارضی پر موجود ہیں۔ ان میں ایسے ہی بھی شامل ہیں جہاں اسلام کا جنم ہوا اور مسلمانوں کے مقدس ترین مذہبی مقامات موجود ہیں۔ انہوں نے عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسان جان کی حرمت کو مقدم جانتے ہوئے مذہبی مقامات کی عارضی بندش اور یہاں اجتماعات پر پابندی عائدکر دی ہے۔

ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں نے فقط تاکید کی ہے مذہبی مقامات پر ہجوم سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ اپنے اندر اتنی ہمت مجتمع نہیں کر پا رہیں کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں میں لوگوں کے ہجوم کو انتظامی حکم نامے سے قابو میں لائیں جیسے سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات اور کچھ دوسرے مسلم ممالک نے کیا۔ الٹا ان ممالک کے اندر اقدامات کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ احتیاطی تدابیر کی بجائے کچھ مذہبی افراد ٹوٹکوں سے کورونا وائرس کے بچاؤ کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے معتقدین ان ٹوٹکوں کو پھیلانے میں مستعد ہیں۔ اس وائرس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ سماجی دوری ہے۔ جتنا ترک تعلق ہوگا اتنے ہی آپ کے اس بیماری سے بچنے کے امکانات روشن ہوں گے۔ آج اگر سندھ لاک ڈاؤن پر چلا گیا ہے تو اس کے پس پردہ ہمارا عجیب و غریب رویہ ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت کے مشوروں اور ہدایات کو کسی نے قابل توجہ نہ جانا اور حکومت کو مجبوراً اس نوع کے اقدام پر جانا پڑا۔

اب لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے انتظامی ڈنڈا حرکت میں آچکا ہے کہ ایمرجنسی کے علاوہ کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس بات کا بھرپور امکان ہے کہ دوسری صوبائی حکومتیں بھی آئندہ دنوں میں مکمل لاک ڈاؤن پر چلی جائیں۔ کچھ روز کا لاک ڈاؤن اور سماجی دوری انسانی زندگی کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس ملک میں جہلا کے طبقے کو یہ بات باور کرانا ویسے تو مشکل ہے لیکن ہم کہے دیتے ہیں تاکہ سند رہے کہ خدا کی ذات کریم نے انسانی جان کی حرمت کو سب سے افضل قرار دیا اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کے بچانے کے مترادف قرار دیا یے۔

جہالت کے میناروں پر چڑھے ان صاحبان کو کون سمجھائے کہ توکل کو تدبیر سے مشروط کیا گیا تھا لیکن پہلے کون سا خرد کی باتیں ان کی موٹی عقل میں سمائی ہے کہ اب کوئی کرشمہ ہو جائے۔ عوام لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی تکلیف کو کچھ دن سہہ لیں کیونکہ بقائے انسانیت اس میں مضمر ہے جسے فیض صاحب جیسے سخنور نے کچھ یوں بیان کیا تھا

مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے

لیکن مرے دل یہ تو فقط ایک گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments