کرونا: ملائشیا سے پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟


کرونا دنیا میں کیسے تباہی پھیلا رہا ہے یہ بات اب زبان زد عام ہے اور لگ بھگ پوری دنیا اس سے نمٹنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب تک 700 سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ کیسز مزید تیزی سے بڑھیں گے۔

ہمارے وزیراعظم ملائشیا کے طرز حکمرانی سے خاصے متاثر ہیں اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کرونا نے عملی طور پر پوری دنیا کو مفلوج کر دیا ہے تو اس ضمن میں ہم ملائشیا سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ملائشیا سے سب سے بڑی غلطی اس وقت سر زد ہوئی جب کوالالمپور میں ایک تبلیغی اجتماع کو 28 فروری سے یکم مارچ تک جاری رہنے دیا۔ اس وقت ملائشیا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں تھی۔

اس اجتماع میں 14000 مقامی اور 2000 کے قریب غیر ملکی مسلم نے شرکت کی۔ ملائیشیا میں اس وقت 1183 کرونا وائرس کے مریض ہیں اور آدھے سے زیادہ مریض اس تبلیغی اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔ جوں جوں دن گزرتے گئے حالات کی سنگینی بھی بڑھتی گئی۔ لوگوں میں بے چینی بڑھنے لگی اور معاملے کی سنگینی کی تپش حکمرانوں کو بھی محسوس ہونے لگی۔ لیکن ملائشیا کی گورنمنٹ نے حالات سے نہ آنکھیں چرائیں اور نہ ہی ڈرے بلکہ کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے ایک واضح اور موثر حکمت عملی کا اعلان کر دیا۔

ملائشیا نے کرونا وائرس کو روکنے کے لئے جو اقدامات لیے ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔

1۔ ہر قسمی مذہبی اجتماعات بشمول جمعہ کی نماز، چرچ سروس، ہندوؤں اور چینیوں کے مذہبی تہوار پر اجتماعات دس تک پابندی لگا دی۔

2۔ غیر ضروری سفر سے اجتناب اور ایسے ممالک جہاں یہ وائرس پھیل چکا ہے وہاں کے شہریوں پر ملائیشیا داخل ہونے کی پابندی لگا دی۔

3۔ 18 مارچ سے یکم اپریل تک لاک ڈاون کا اعلان کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔

4۔ تمام ہوٹل اور کیفیز سے کھانا صرف ٹیک اوے کیا جا سکے گا۔

5۔ انتہائی ضرورت کے تحت گھر کا ایک فرد مارکیٹ جا سکتا ہے ایک سے زیادہ افراد کے باہر جانے کے لیے پولیس سے سرٹیفیکیٹ لینا لازمی ہے بصورت دیگر پولیس ایسے افراد کو گرفتار کر سکتی ہے۔

ان تمام ہدایات پر عمل درآمد کرانے کے لیے حکومت کا ہر ادارہ اپنا کردار احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔ اس کی مثال یونیورسٹی سائنس ملائیشیا کے اقدامات سے (راقم یہاں سے پی ایچ ڈی کر رہا ہے ) دی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی سٹوڈنٹ کیمپس سے باہر نہیں جا سکتا، اگر باہر جانا انتہائی ضروری ہے تو ڈپٹی وائس چانسلر آفس سے تحریری اجازت لینا ضروری ہے جو کہ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایسے تمام سٹوڈنٹس اور ان کے بچے جو کیمپس کے اندر رہائش پذیر ہیں ان کو دس دن تک کھانا یونیورسٹی فراہم کرے گی۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی نے تمام سٹوڈنٹس کو راشن کارڈ/ کوپن جاری کر دیے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن سے پاکستان استفادہ کر سکتا ہے اور اس عالمی وبا کو پھیلنے سے روک سکتا ہے۔ ایک دوسرے سے فاصلے بڑھائیں (social distancing ) اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments