سید ممتاز عالم گیلانی: میرا بھائی، میرا کامریڈ


بہاولنگر کی تاریخ نے ایسی دلدوز محبتوں کا ہجوم شاید ہی کبھی دیکھا ہو اور وہ بھی کرونا وائرس کے پھیلتے خوف کے گھمبیر سایوں میں۔ وہ جو کبھی سماجی جمہوری جنگ میں کسی مورچے پہ بار ماننے کو تیار نہ تھا، کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ لیکن اس بار اُس کے آبائی شہر میں کسی کامرانی کے جلوس کی بجائے، سوگواروں کا ہجوم اپنے بے لوث، ہردلعزیز عوامی رہنما سیّد ممتاز عالم گیلانی کے جسدِ خاکی کے آخری سفر میں اُسے وداع کرنے کے لیے جمع تھا۔

کرونا وائرس کے باعث اُس کی موت کا اعلان کیا گیا تھا، نہ کوئی روایتی نامہ و پیام۔ بس اس خبر کا سینہ بہ سینہ پھیلنا تھا کہ ”گیلانی صاحب نہیں رہے“، جانے کہاں کہاں سے اور کون کون سے لوگ آخری دیدار اور مغفرت کی دُعا کے لیے جمع ہو گئے تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور بارِ یگانگت سے جھکی ہوئی۔ میری اُن سے، اپنے بڑے بھائی اور کامریڈ سے ستر برس کی رفاقت انجام کو پہنچ رہی تھی اور سات دہائیوں کی جمہوری اور عوامی حقوق کی جدوجہد، قید و بند کے طویل سلسلے، رفاقت و شادمانیوں اور کربناک امتحانوں کے تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ بس قلبی سکون اگر تھا بھی تو یہ کہ لوگوں کے تشکر کے جذبات سے بڑا نذرانۂ عقیدت کسی بھی عوامی رہنما کے لیے کیا ہو سکتا ہے۔ چے گویرا کی اک نظم کا شعر میرے دماغ میں گونجنے لگا:

جب ہم غنیم کی گولیوں کا شکار ہوں گے

ہم فقط جنتا کے آنسوؤں کے طلبگار ہوں گے

یہ تھے ممتاز عالم میرے بڑے بھائی جو ایک شفیق دادی اور اکیلی ماں اور خالہ کی کوششوں سے تعلیم حاصل کر پائے۔ جب ستر برس پہلے ایک روز فجر کی اذان کے ساتھ ایک نومولود چیخ سنائی دی تو ایک آٹھ سالہ بچہ خوشی سے چلا اُٹھا کہ میرا ساتھی آ گیا ہے۔ پھر جب وہ نومولود آٹھ برس کا ہوا تو اس کا بڑا بھائی پردیس جا چکا تھا۔ راولپنڈی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ ایس ایم لا کالج میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے پہنچا تو کراچی میں موجود نوجوان انقلابیوں معراج محمد خان، فتحیاب علی خان اور شہنشاہ حسین وغیرہ کے ساتھ مل کر ایوب آمریت کے خلاف متحرک ہو گیا۔

وہ این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایس ایم لا کالج کی یونین کا عہدیدار منتخب ہوا۔ 1964 کے بالواسطہ انتخابات کا اعلان ہوا تو وہ بھی ملیر کینٹ کے فوجی علاقے سے بی ڈی ممبر منتخب ہوا تو وہ متحدہ اپوزیشن کی صدارتی اُمیدوار مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں کود پڑا اور محترمہ جناح نے اُسے اپنا چیف الیکشن ایجنٹ مقرر کر دیا۔ لیکن انہیں اور اُن کے دوست مناظر کو اغوا کر لیا گیا اور ایوب خان نے ایک بڑی انتخابی دھاندلی سے قائداعظم کی ہمشیرہ کو انتخابی معرکہ جیتنے نہ دیا۔

مجھے یاد ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپوزیشن رہنماؤں کو کہا کہ جیسا کہ ہم انتخاب درحقیقت جیت چکے ہیں تو کیوں نہ ہم پریذیڈینٹ ہاؤس جائیں اور میں ریڈیو پاکستان سے اپنے صدر منتخب ہونے کا اعلان کر دوں۔ لیکن جو ہمت مادرِ ملت میں تھی اُس کا مظاہرہ اپوزیشن رہنماؤں نے نہ کیا اور یوں ایوب خان صدارت پہ بالجبر قابض رہا۔ دریں اثنا 1965 کی جنگ چھیڑی گئی اور ایوب خان کے ”عشرہ ترقی“ کا زوال شروع ہوا۔ اس کی نیولبرل اور ریاستی سرپرستی میں سماجی و علاقائی تفریق کی پالیسی نے ایک طرف طبقاتی تفریق بڑھاتے ہوئے بائیس خاندانوں کی اجارہ داری تو قائم کی لیکن ”ترقی“ کے یہ ٹپکے محنت کشوں کے خشک ہونٹوں کو تر نہ کر سکے  اور وہ جگہ جگہ ہڑتالوں اور مظاہروں پہ مجبور ہو گئے۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان و دیگر چھوٹے صوبوں کے استحصال سے علاقائی نابرابری کو مضبوط مرکز اور ملکی سلامتی کے نام پر اتنا بڑھایا گیا کہ 1940 کی قرارداد میں کیے گئے علاقائی خودمختاری کے وعدے دفن ہو کر رہ گئے اور بنگالی، بلوچ، سندھی اور پختون قوم پرستی کے لاوے پھوٹ پڑے۔

پھر 1968 کا عظیم عوامی اُبھار آیا، ہر طرف طالب علم، نوجوان، مزدور اور دانشور میدان میں نکل آئے۔ ممتاز عالم جو کہ وکلا کے رہنما تھے کالے کوٹ پہن کر باہر نکلے اور میں لاہور میں طالب علموں کی ایکشن کمیٹی اور این ایس او کی رہنمائی کرتے ہوئے عظیم عوامی اُبھار میں شامل ہو گیا۔ بہاول نگر میں ”جشن عشرہ ترقی“ منایا جا رہا تھا اور ہم طالب علم ایک جلوس لے کر جشن کی جگہ پہنچے ہی تھے کہ سارا میلہ اُلٹ گیا، کرفیو لگا اور ہمیں گرفتار کر لیا گیا۔ مجھ پر ایک خوفناک دفعہ لگائی گئی، شہر میں ہڑتال ہوئی اور تمام بار میری ضمانت کے لیے میرے بھائی کی سربراہی میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچی اور بمشکل ضمانت مل سکی۔

ایک برس پہلے جب ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اس میں ممتاز عالم بھی شامل تھے۔ 69 کے عوامی اُبھار کی لہروں کے دوش پر ذوالفقار علی بھٹو ایک پاپولسٹ رہنما کے طور پر اُبھرے اور مغربی پاکستان میں چھا گئے۔ اب ایوب آمریت تو ختم ہوئی لیکن ایک اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان اقتدار پر براجمان ہو گیا۔ مشرقی پاکستان میں بہیمانہ فوج کشی کی خلاف میری طرح انہوں نے بھی آواز اٹھائی لیکن کسی نے نہ سنی، ہمیں جیل میں ڈال دیا گیا اور میں سال بھر جیل کاٹ کر جب باہر آیا تو پاکستان دو لخت ہوگیا۔

بھٹو کے پروگرام میں سب کچھ شامل تھا۔ سوشلزم، عوامی راج، اسلام اور بھارت سے ہزار سال جنگ اور اسلامی اور تیسری دُنیا کا اتحاد بھی۔ معراج محمد خاں جیسے قدآور سوشلسٹ اور شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن اور ممتاز عالم جیسے سوشل ڈیموکریٹس سے لے کر سندھ، پنجاب اور پختون خوا کے کئی بڑے جاگیردار اور دیہی اور شہری محنت کشوں کا ایک جمِ غفیر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گیا۔ بجائے اس کے سوشلسٹ اپنی آزادانہ حیثیت میں کھڑے ہو کر پیپلز پارٹی سے متحدہ محاذ بناتے اُن کی بڑی تعداد یا تو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی یا پھر باہر بیٹھ کر اُس کی حمایت پر مجبور ہو گئی۔ جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جب کھمبے کو بھی ووٹ پڑ گیا تو بائیں بازو کے اُن دوستوں جو ”انتخاب نہیں انقلاب“ پر مصر تھے اور جنھوں نے معراج محمد خاں اور ممتاز عالم سمیت درجنوں پارٹی ٹکٹ واپس کرتے ہوئے دوسروں کے لیے انتخابی مہم چلائی، وہ سب انتخابات کے نتائج پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اور جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو یہ لوگ رفتہ رفتہ سائیڈ لائن کر دیے گئے اور جاگیرداروں نے پیپلزپارٹی پہ اپنی گرفت مضبوط کر لی اور شیخ رشید جیسے کسان لیڈر پارٹی میں غیرموثر ہو گئے۔

ممتاز عالم بھی شیخ رشید کے اُن ساتھیوں میں سے تھے جو اُمید کا دامن تھامے رہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں جہاں کچی پکی اصلاحات ہوئیں وہاں ٹریڈ یونینز، کسانوں اور بائیں بازو والوں پہ بھی ایک آفت ٹوٹی۔ میں اس وقت مزدور کسان پارٹی پنجاب کا جنرل سیکرٹری تھا۔ واں بھچراں (میانوالی) میں ہماری ہزاروں کسانوں کی ریلی پہ پولیس حملہ آور ہوئی اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور میانوالی جیل ہمارا مقدر ٹھہری۔ پاپولزم نے ریاست کی طاقت سے سٹریٹ پاور کو کچلنے کی راہ اپنائی۔

دوسری جانب ان کی چند ترقی پسند اور کچھ احمقانہ اصلاحات (جیسے چھوٹی ملوں اور زرعی کاروبار کو قومیانے کے اقدامات) کے خلاف ملا اور بازار سرگرم ہو گئے اور تاک میں بیٹھے ہوئے جنرل ضیا الحق نے پاکستان قومی اتحاد بنوا کر دائیں بازو کی رجعتی تحریک کو ابھارا۔ مزدور کسان پارٹی نے اس رجعتی تحریک کی مخالفت کی۔ بھٹو صاحب اگر سخت آمرانہ روش اختیار نہ کرتے تو مارشل لگتا نہ بھٹو پھانسی چڑھتے۔ پھر بھٹو صاحب کی بہادری اور شہادت سے جمہوری تحریک کو جِلا ملی اور ہم دونوں بھائی پھر سے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے جمہوری مزاحمت میں شامل ہوگئے۔ مارشل لا کی اس طویل رات کے خلاف ہزاروں جمہوریت پسندوں اور سوشلسٹوں نے لمبی جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے اور عقوبت گاہوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ ممتاز عالم بھی کئی بار جیلوں میں گئے اور میرے جیسے سوشلسٹوں اور انقلابیوں کے لیے جیل کی طویل رات ختم ہونے کو نہ آئی تا آنکہ آمریت کے سائے ڈھلنے شروع نہ ہوئے۔

مجھے یاد ہے کہ میری ماں نے مجھے اور میرے بھائی کو جیل میں الگ الگ خط لکھا کہ تم دونوں جیل میں ہو اور میں گھر کے دروازے کھولے تمہاری منتظر ہوں۔ میں نے جوابی خط میں اپنی بی بی ماں محترمہ حمیدہ بیگم کو لکھا کہ پنو عاقل کے مقام پر ایک ماں کے دو بچے جمہوری مزاحمت میں شہید کر دیے گئے ہیں، آپ شکرانے کے نفل ادا کریں کہ آپ کے دونوں بیٹے جیل میں ہیں۔ جب 1988 کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم گیلانی نے بغیر ایک پیسہ خرچ کیے حلقہ این اے 144 سے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار خاندان کو شکست دی جو 1970 کے انتخابات میں بھی کامیاب رہا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے اُن کا قریبی تعلق تھا اور اُنہوں نے انہیں اپنا چیف کوآرڈینیٹر بنایا۔ بعد کے انتخابات دھاندلی کا شکار رہے یا پھر جنرل مشرف آمریت کی بھینٹ چڑھے۔

جب 2008 کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم پھر سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور ملک کے پہلے وزیرِ انسانی قانون۔ وزارت کے پاس کوئی فنڈ نہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے انسانی حقوق کے لیے بڑا کام کیا اور جمہوری جدوجہد کے سینکڑوں مجاہدین کی جدوجد کے اعتراف میں بے نظیر ہیومن رائٹس ایکسیلنس ایوارڈ جاری کیا۔ حکومت کے خاتمے پہ جب وہ گھر لوٹے تو خالی ہاتھ تھے۔ اگلے انتخابات میں جب سرائیکی علاقے میں پیپپلز پارٹی کو یوسف رضا گیلانی جیسے وڈیروں کے حوالے کردیا گیا تو اُنہیں پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا اور وہ پیپلزپارٹی کا جھنڈا پہنے آخری آرام گاہ میں سکون کی نیند سو گئے۔ اب عوام اُن کی یاد میں آنسو بہایا کریں اور ہم سب اور اُن کی بیگم ثمینہ عابدہ اُن کی یادوں کے دیے جلایا کریں

 سب کہاں کچھ لالہ وگُل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments