لاک ڈاون اور عوام کی غیر سنجیدگی


ملک میں اس وقت لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اس کے ذمہ دار عوام ہی ہیں ان کے غیر سنجیدہ رویہ نے حکومت کو اس اقدام پر مجبور کیا۔ وزیراعلیٰ پہلے مرحلے میں بار بار کہتے رہے کہ رضاکارانہ طور پر گھروں میں رہیں چھٹیاں پکنک کے لئے نہیں دی گئیں لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ لاک ڈاؤن کے بعد اب خبر یہ ہے کہ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کہہ چکے ہیں کہ اگر اب بھی عوام گھروں پر نہ رہے تو کرفیو لگانا پڑے گا۔ کچھ علم نہیں کہ اس تحریر کے چھپنے تک ملک میں کرفیو لگ ہی جائے کیوں کہ گھر میں تو ہم نے بیٹھنا نہیں۔ کسی کو بیگم کے ساتھ شوارما کھانا ہے، کسی کو گھر پر بیٹھ کر فلم انجوائے کرنی ہے تو اس کے لئے ساتھ چپس ہونا لازم ہیں تو کسی کے بچے کورونا کی طرح کنٹرول سے باہر ہیں۔

کورونا کے خطرے کے پیش نظر حکومت سندھ نے لاک ڈاون کا اعلان تو کیا لیکن عوام کی غیر سنجیدگی سے حکومتی اقدامات بے اثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیکیورٹی اہلکار مرکزی شاہراہ پر تو کہیں کہیں دکھائی دیے لیکن گلی محلوں میں لوگوں کا رش ویسا ہی رہا اس میں کوئی کمی نہ آئی۔ سندھ حکومت کی جانب سے گاڑی میں دو افراد کی پابندی نہ کرائی گئی۔ حال یہ رہا کہ سڑکوں پر رکشہ اور ٹیکسی تک چلتی رہیں سندھ میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔

باشعور عوام کا کہنا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن پر مکمل عمل بھی کرائے۔ سندھ بھر میں مرکزی مارکیٹیں بند ہیں لیکن اشیا خورونوش، میڈیکل اسٹورز، سبزی اور گوشت کی دکانیں کھلی ہیں۔ جگہ جگہ دیہاڑی پر کام کرنے والے افرا د مجبوری کے عالم میں نظر آئے لیکن ان کو کام نہ ملا۔ پولیس کی جانب سے شناختی کارڈ دیکھ کر اور پوچھ کر جانے دینے کا عمل جاری رہا۔ ان تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود گلی محلوں میں عوام کا غیر ذمہ درانہ رویہ دیکھنے کو ملا۔ عوام کے ایسے رویے کے بعد ملک بھر میں فوج طلب کرلی گئی، جس کے بعد پاک فوج کے ادارہ برائے ابلاغ عامہ کے ڈی جی نے نیوز بریفنگ دی اور قوم کو معاملے کی سنگینی سمجھائی۔ تمام بیرون ملک پروازوں کا شیڈول منسوخ کردیا گیا۔ ٹرینیں کی آمد ورفت بھی بند ہوگی۔ فوج کے میدان میں آنے سے صورتحال قدر بہتر ہوئی۔

ملک میں اب تک کورونا کے مریضوں کی تعداد 850 سے زیادہ ہوچکی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس وقت میڈیکل اسٹور والا آپ کو اپنے ساتھ نظر آئے گا، راشن کی دکان بھی کھلی ہوگی۔ فوج، پولیس، رینجرز، ڈاکٹر اور صحافی بھی ان سخت حالات میں عوام کے درمیان ان کی خدمت میں موجود ہیں۔ سندھ حکومت کی اگر کارکردگی دیکھی جائے تو وہ بھی بہترین ہے۔ وزرا کورونا کے خلاف جنگ میں مسلسل میدان عمل میں نظر آرہے ہیں۔

وزیر تعلیم سندھ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اللہ انہیں صحت عطا کرے۔ کہتے ہیں اپنوں کا پتہ مشکل وقت میں ہی چلتا ہے۔ عوام کو اپنے منتخب ایم این ایز ایم پی ایز، یونین کونسل کے نمائندوں اور دیگر افراد کا پتہ تو چل ہی گیا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنے منتخب نمائندوں کو یاد ہی کر رہا ہے لیکن ناجانے یہ لوگ کہاں ہیں ہاں ان میں سے کچھ سوشل میڈیا پر تصاویر کھچاتے نظر آئے لیکن اکثر نے یہ بھی ضروری نہ سمجھا اور سیلف آئسولیشن میں حکومتی احکامات سے پہلے ہی چلے گئے۔

کراچی سے انتخابات مین بار بار ریجکٹ ہونے والی جماعت اسلامی بھی اس وقت عوام کی خدمت میں آگے آگے ہیں۔ جماعت اسلامی کے تمام اسپتالوں کو اسولیشن سینٹر بنانے کے احکامات امیر جماعت اسلامی سراج الحق جاری کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے کارکنان رضاکارانہ طور پر دینے کی پیش کش بھی حکومت کر کردی ہے۔ یہ ایک احسن عمل کے جماعت اسلامی نے یہ نہیں سوچا کہ جن کو منتخب کیا وہی عوام کو سنبھالیں یا اس وقت پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی اور میدان میں خدمت کے لئے آگئے۔

مولانا فضل الرحمان نے بھی لاکھ اختلافات کے باوجود اپنے 40 ہزار کارکنوں کو اس جنگ میں رضاکار بنانے کو تیار ہیں۔ جعفریہ ڈزاسٹر سیل (جے ڈی سی) بھی اس مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ جے ڈی سی کی جانب سے کورونا متاثرین کو کھانا مہیہ کیا جارہا ہے اور دسترخوان پر ضرورت مندوں کو کھانا پارسل بھی دیا جارہے ہے۔ سیلانی اور مولانا بشیر فاروقی کبھی عوامی خدمت میں پیچھے نہیں رہے۔ اس وقت بھی سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ حکومت کے ساتھ کھڑا ہے۔

متاثرین اور دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے گھروں پر راشن پہنچانے کا کام تیزی سے جاری ہے اور اس کام میں کہیں نہ کہیں فکس اٹ کے لوگ بھی نظر آہی رہے ہیں۔ ابدالی ویلفئیر سوسائیٹی کے سربراہ شفیق سرور اپنی ٹیم کے ساتھ عوامی خدمت میں مصروف ہیں ابدالی سوسائیٹی کی جانب سے شہر کراچی میں 10 مقامات پر بلامعاوضہ ضروت مندوں کو تندور سے روٹیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ ایم یوتھ ڈیویپلمنٹ فورم اس وقت مستحق افراد کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے تاکہ جلد ان میں راشن تقسیم کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے میرا کراچی تیرا کراچی، سندھ ہمارا، پنجاب پر جان قربان کے نعروں والوں کی بڑی بڑی گاڑیاں کہاں ہیں؟

کیا ہمارے ملک کے بڑے سیاست دانوں کے پاس کم پیسہ ہے؟ کیا ہم عمران خان کے ساتھ ہیں کا بیان دے دینا کافی ہوگا؟ ملک اس وقت مشکل میں ہے کیا حکومتی فنڈ اور بجٹ سے ہٹ کر کوئی سیاستدان اپنے اربوں روپے میں سے کچھ اس مشکل گھڑی میں عمران خان کو دے گا؟ بلاشبہ یہ اثاثے ان کے ذاتی ہیں بحیثیت ایک باشعور انسان کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ہمارا حق نہیں لیکن عوام کو اپنا کہنے والے اس وقت عوام کے لئے کیا قربانی دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments