اف اللہ ہمیں چلنا پھرنا پڑا


میں نے اپنی سادہ مگر پرکشش بارڈر والی گہرے نیلے رنگ کی ساڑھی باندھی۔ آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے ساڑھی کا پلو سیٹ کیا۔ ہاتھ سے ساڑھی کی پلیٹیں سیٹ کرتے ہوئے، جھک کے ساڑھی کی فال دیکھی۔ میں نے اب تک جوتا نہ پہنا تھا۔ ساڑھی بھی اسی حساب سے باندھی تھی کہ لانگ ہیل نہ پہنوں۔ موقع کوئی خاص نہ تھا، بس تین چار گھنٹے کی گیدرنگ تھی۔ اس گیدرنگ میں سب سہیلیوں کا ساڑھی باندھنے کا ارادہ۔

’میں نہیں پہن رہی ہیل‘۔
دل میں ایک ضد نے سر اٹھایا۔
’میرے پیر تھک جاتے ہیں‘۔
پر تھوڑا اونچا جوتا تو پہننا ہو گا، ورنہ بہت ہی کیژول لگے گا۔
‘ہممم۔۔۔ اچھا۔۔ دیکھتی ہوں‘۔

میں نے پرفیوم اسپرے کیا۔ کان سے لٹکتا سلور کا بندا ٹھیک کیا اور آئینے سے گھوم کر چار منزلہ جوتوں کے ریک کا دروازہ کھولا۔

’ارے ارے ے ے ے۔۔۔ باہر جانے والی ایک عام سی فلپ فلاپ جوتی لڑھکتی ہوئی نیچے آ گری۔
’اے لو میری تو کوئی قدر ہی نہیں‘۔ جوتی نے کراہتے ہوئے کہا۔

میں نے اسے غصے سے اٹھایا اور بڑبڑائی۔ ’افوہ۔۔۔ یہ ممتاز بھی نا۔۔۔ بس ٹھونستی ہے جوتے۔۔ اوپر تلے‘۔
یہ کہتے ہوئے میں نے اسے دوبارہ دوسری والی منزل میں ٹھونس دیا۔
’ہائے مجھے میرے سیاں سے دور کر دیا‘۔

فلپ فلاپ کا دوسرا پیر پہلے خانے میں پڑا تھا۔ میں نے غیر ارادی طور پہ اسے دوسرے خانے سے نکال کر پہلے خانے میں اس کے ساتھی سے بغل گیر کروا دیا۔

اب میں بغور دیکھنے لگی کہ کون سا جوتا پہنوں۔ مشکل ہو رہی تھی، لہٰذا ساتھ پڑا اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
’یہ ہیل ہی پہن لوں۔۔ اچھی لگے گی‘۔ میں نے یہ کہتے ہوئے اسکن کلر کی مٹالک سینڈل اٹھائی تو وہ بول پڑی۔ ’رہنے دیں آپ۔۔۔ واپس آ کر ساری رات مجھے کوسیں گی۔۔ پنجہ تھک جاتا ہے آپ کا ہیل پہن کر‘۔

’بات تو صحیح ہے۔۔ تھک جاؤں گی‘۔ میں نے کہا۔ ’تم گھنٹا دو گھنٹا ٹھیک رہتی ہو، پھر تنگ کرنے لگتی ہو۔۔۔۔ لگتی غضب کی ہو، و یسے‘۔

میں نے اپنی لیدر کی خوبصورت سی چپل کی طرف دیکھا، جو پہننے میں بے حد آرام دہ ہے۔ شبانہ اعظمی کے قد بت کی جھلک آنکھوں کے سامنے لہرا گئی۔ چپل گویا میرے ذہن کو پڑھ کر بول اٹھی۔

’بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔۔ میرے ساتھ ساڑھی کا جوڑ بڑا کلا سک دکھتا ہے پر۔۔ انڈینز تو ہر وقت ساڑھی باندھتی ہیں، تو سب چلتا ہے۔۔ آپ تو کبھی کبھی۔۔۔۔۔ تو۔۔ تھوڑا اہتمام کر لیں نا۔۔پلیز‘۔

میں نے جھک کر سب سے نچلے خانے میں دیکھا۔ چند بند جوتے بول پڑے۔
’ہماری ضرورت تو نہیں نا؟۔۔ ساڑھی کے ساتھ بوٹ یا پمپس تھوڑی پہنے جاتے ہیں’!
ان بند جوتوں کو باکل لفٹ نہ کرواتے، میں نے تیسرے ریک میں دیکھا۔
’کہاں گئی’؟

مجھے اس بلیک جوتے کی تلاش تھی، جو تھا تو ویج پر میں ایک دفعہ ٹرائی کرنا چاہتی تھی، کہ ساڑھی کے نیچے اچھا لگے گا کہ نہیں۔

’یہاں ہوں۔۔ یہاں‘۔ بلیک ویج جوتے نے اندھیرے سے جھانکتے ہوئے کہا۔ ’یہ زرا ہاتھ بڑھا کر کھینچیے۔۔آ آ آ‘۔
میں نے ہاتھ سے جوتوں کے جوڑے کو محسوس کرتے، ایک ساتھ نکال لیا۔

’ظالم۔۔۔ یہ کارک سول تمھارا بڑا آرام دہ ہے‘۔ جوتے نے خوش ہو کر اپنا منہ آگے کیا۔ ’تمھارا گول فرنٹ بھی زبردست ہے۔۔۔ پاؤں ایک دم فٹ بیٹھتا ہے۔ تم پہ‘۔

جوتے نے اتراتے ہوئے کہا، ’آپ کے مزاج کو میں ہی سمجھتا ہوں۔۔۔ جب سے ہمارا ساتھ ہے، کبھی کوئی تکلیف پہنچی آپ کو مجھ سے؟‘

’پر یہ کارک سول ساڑھی کے نیچے اچھا لگے گا؟۔۔۔ ہممم۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ پہن کر دیکھ لیتی ہوں‘۔
میں نے یہ کہا تو جوتا بول اٹھا، ’اس میں ایسی کیا بات ہے؟۔۔ منفرد جوتا شخصیت کا اعتماد ظاہر کرتا ہے۔۔۔ اور پھر میرا رنگ بھی تو آپ کی ساڑھی کے ساتھ اوپرا نہیں لگے گا۔۔ چلیے مجھی کو پہن لیجیے، بس‘!

میں نے بلیک ویج زمین پہ رکھا، اور دونوں پیروں میں پہن کر کھڑی ہوئی۔
’بڑے مزے کا جوتا ہے۔۔۔ انتہائی کمفرٹ ایبل‘۔
میں گھومی، آئینے میں خود کو سر تا پا دیکھا۔ گہرے نیلی رنگ کی ساڑھی کی سائیڈ سے کارک سول دکھتا، مجھے کچھ بھلا نہ لگا۔

’ارے یار۔۔ کاش تم مکمل بلیک ہوتے‘۔ میں نے یہ کہتے ہوئے اسے اتارا۔ وہ بول پڑا:
’یہ کیا بات ہوئی۔۔ چلیں آپ کوئی مکمل بلیک دیکھ لیں۔۔۔ وہ جو اسی دن میرے ساتھ لیا تھا‘۔
مجھے اچانک یاد آیا، اسی جوتے کے ساتھ میں نے ایک میڈیم سائز کی بلاک ہیل والا جوتا بھی تو لیا تھا۔ مسئلہ حل ہو گیا۔ میں مسکرائی۔ ایلیگنٹ اور آرام دہ!۔ میں نے اسے اس کے خانے میں رکھا اور نظر دوڑائی۔ بلاک ہیل والا جوتا تیسرے خانے میں پڑ ا ملا۔ میں نے اسے پکڑتے ہی جوتوں کا ریک بند کیا۔ فیصلہ ہو چکا تھا۔

سینڈل نے کہا ’میں تو پہلے ہی سوچ رہی تھی۔ آپ کی ساڑھی کے ساتھ میں ہی جچوں گی‘۔
میں نے پہن کر آئینہ دیکھا۔ سمارٹ لک آ رہا تھا۔ میں نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا، ’زبردست، مجھے پہلے تم یاد کیوں نہیں آئیں‘؟ میرے چہرے پہ خوشی کی چمک تھی۔

’ہم کہاں کسی کو ہر وقت یاد رہتے ہیں۔۔ جوتے جو ٹھہرے!۔۔ پر ایک بات ہے۔ آپ کی شخصیت کا تاثر ہمی سے بنتا ہے۔۔۔ اور جناب۔۔ آپ کا موڈ بھی ہمارے ہی تابع ہوا کرتا ہے‘۔

میں مکمل اعتماد سے مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل آئی۔ کم بخت ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments