ہندو انتہا پسندی کا سیاسی طوفان


بھارت اور بالخصوص نریندر مودی کی داخلی سیاست بڑی تیزی سے ہندو انتہا پسندی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس بات کا احساس جہاں عالمی دنیا میں موجود ہے وہیں داخلی محاذ پر بھی سیکولر، لبرل اور اعتدال پسند بھارتیوں میں بھی تشویش کا پہلو نمایاں ہے۔ مسئلہ محض ہندو انتہا پسندی کا ہی نہیں بلکہ مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں میں بھی اپنی سیکورٹی اور تحفظ کے تناظر میں ایک بڑا خطرہ موجود ہے۔ نئی دہلی کے حالیہ ہونے والے فسادات نے عملی طور پر 2002 میں ہونے والے گجرات میں ہونے والی مسلم کشی کی یاد تازہ کردی ہے۔

گجرات واقعات کا ماسٹر مائنڈ خود نریندر مودی تھے۔ یہ بات بھی کافی حد تک درست ثابت ہو رہی ہے کہ دہلی فسادات کی منصوبہ بندی موجودہ مودی حکومت اور ان کے انتہا پسند طاقت ور دوستوں کی باہمی رضامندی سے طے ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہنگاموں میں سخت گیر ہندوں کے ہاتھوں مسلمان آبادیوں پر حملوں، قتل و غارت گری اور پرتشدد واقعات کے باوجود نہ تو وزیر داخلہ اور نہ ہی وزیر اعظم ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے مذمت کا پہلو سامنے آیا ہے۔

ابھی حال ہی میں دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مودی اور آر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ نے مختلف علاقوں سے دو ہزار سے زیادہ ان لوگوں کو مسلح انداز میں اکٹھا کیا جن کا مقصد مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور ان میں عملا خوف کی فضا پیدا کرنا مقصود تھا۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ دہلی فسادات میں پچاس کے قریب لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار یہ تعداد زیادہ بتاتے ہیں۔

اس رپورٹ کے بقول مسلمانوں پر بڑے وحشیانہ انداز میں نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ ان کو زندہ مار دیا گیا اور کئی افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اسی رپورٹ کے بقول دہلی کے واقعات کسی فرقہ ورانہ فسادات کا نتیجہ نہیں تھے اور نہ ہی ان واقعات سے قبل کوئی فرقہ ورانہ جھگڑا دیکھنے کو ملا۔ ان واقعات کا خاص ٹارگٹ مسلم آبادی تھی اور یہ سب کچھ ریاستی و حکومتی سرپرستی کی مدد سے ہوا جو بھارت میں موجود سیکولر سیاست سے متصادم ہے۔

اس دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ سے قبل پہلے ہی دو عالمی رپورٹس نے بھارت کی موجودہ صورتحال اور وہاں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مختلف واقعات کی بنیاد پر اسے دنیا کا اقلیتوں کے تناظر میں غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا تھا۔ بھارت میں اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق ہونی چاہیے کہ دو ہزار سے زیادہ لوگ جو دہلی سے باہر کے تھے وہ کون لایا اور کس نے ان کو مسلح کیا اور کون ان کی سرکاری سرپرستی یقینی بنارہا تھا۔

بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے ایک حالیہ کالم جو ”ہندو“ میں لکھا ہے کہ وہ موجودہ حالات سے سخت مایوس ہیں۔ ان کے بقول بھارت کو بطور ریاست جو چیلنجز درپیش ہیں اگر ان کا فوری طور پر سدباب نہ کیا گیا توحالات بے قابو ہوسکتے ہیں اور مجھے تشویش ہے کہ خطرات کا مضبوط مرکب نہ صرف بھارتی روح کو مخدوش کرسکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری معاشی اور سیاسی طاقت پر مبنی عملی حیثیت کو بھی نست و نابود کرسکتا ہے۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ بھارت کی لبرل اورسیکولر شناخت مانند پڑتی جارہی ہے اور عالمی سطح پر ہم اس عمل میں زیادہ سیاسی تنہائی کا شکار ہوئے ہیں۔

اسی طرح بھار ت کی معروف دانشور، مصنف اور انسانی حقوق کی بڑی راہنما ارونددتی رائے کہتی ہیں کہ ہندو انتہا پسندی بھارت کا ایک بڑا کرونا وائرس ہے۔ جبکہ نریندر مودی بدترین آمر اور ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں پر حملوں کا ذمہ دار ہے اور انتہا پسندی جیسے موذی مرض میں بھارت بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول دہلی میں تشدد محض فسادات نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف منظم بربریت ہے۔ اسی طرح ایک اور بھارتی مصنفہ کنعان ملک کے بقول دہلی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کی ذمہ داری ہندو قوم پرست بی جے پی کا پھیلایا ہوا نفرت کا زہر ہے اور ان کے بقول شہریت قانون کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کو بھارت کے روہنگیا بن جانے کا خطرہ ہے کیونکہ مودی اور آر ایس ایس بھارت کو صرف ہندو کی بنیاد پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں بہت سے لوگوں کی توقع کا مرکز سپریم کورٹ تھی اور ان کو یقین تھا کہ مودی سرکار کی مسلم یا دیگر اقلیتوں پر مبنی دشمنی کے آگے عدالت بندھ باندھے گی۔ لیکن اس مقدمہ کو عدالت نے ایک ماہ تک موخر کرکے اپنی بے بسی اور مجبوری کا بھی نمونہ پیش کیا ہے یا وہ بھی اسی ہندواتہ کی سیاست کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسئلہ محض موجودہ مودی یا آر ایس ایس کی حکومت کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ حکومت ریاستی اداروں کو بھی یرغمال بنا چکی ہے یا اسے ان ریاستی اداروں کو بھی ہندو انتہا پسندی میں مبتلا کردیا ہے جو بظاہر اقلیتوں کے لیے ایک بڑے سنگین خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب کے صدارتی امیدوار برنی سینڈر نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت میں بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر خاموشی اختیار کرکے ایک بڑے سنگین جرم جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

نریندر مودی اور ان کے سخت گیر ہندو انتہا پسند ہندوں نے بھارت کی سیاست کو ہندو انتہا پسندی میں دکھیل تو دیا ہے لیکن نفرت کی یہ آگ محض اقلیتوں تک محدو د نہیں ہوگی بلکہ دہلی سمیت پورے بھارت میں یہ آگ پھیل سکتی ہے اور خود ہندو بھی اس کا شکار ہوں گے۔ ہندو انتہا پسندی کا کھیل تو مودی نے شروع کردیا ہے لیکن اس کے نتائج کو قابو کرنا مستقبل میں بھارت کے لیے خود ایک بڑا خطرہ ثابت ہوں گے اور بظاہر لگتا ہے کہ آج کی ہندو انتہا پسند حکومت کو اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ بھارت میں اس لگائی گئی آگ کا مستقبل کیا ہوگا اور کیسے یہ عملا بھارت کو محفوظ بناسکے گا۔

دنیا نے ابھی مسلم انتہا پسندی کی ایک بڑی عالمی یلغار دیکھی ہے اور جو کم ضرور ہوئی ہے مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور خود پاکستان بھی اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔ ایسے میں مسلم انتہا پسندی کے مقابلے میں ہندو انتہا پسندی کا ابھرنا ایک بڑے ٹکراؤ کی کیفیت کو بھی پیدا کرسکتا ہے۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مودی کی ہندو انتہا پسندی کا بیج بھارت میں موجود مسلمانوں کو بھی آگے جاکر مجبو ر کرے گا کہ وہ بھی انتہا پسندی یا تشدد کا راستہ اختیار کریں جو بھارت کے لیے ایک نیا خطرہ ہوگا۔

دراصل موددی کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ”مذہبی انتہا پسندی کا کارڈ“ ان کے سیاسی کھیل اور طاقت کے لیے ٹرمپ کا پتہ ہے اور وہ اسی کارڈ کی بنیاد پر انتخابات بھی جیت کر آئے ہیں۔ دہلی میں اگرچہ وہ انتخاب ہا رگئے ہیں مگر اب وہ چند ماہ بعد ہونے والے بہار کے انتخابات میں اسی ہندو انتہا پسندی کا کارڈ کھیل کر اپنی سیاسی برتری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کی ہندو انتہا پسند سیاست کے سامنے ایک دیوار بھار ت میں ان کے سیاسی مخالفین کی بھی ہے اور اس میں سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے اہم نام بھی اس مخالفانہ مہم کا حصہ ہیں۔ بھارت کے تعلیمی اداروں سے مودی مخالف لہر نے مودی حکومت کو ایک بڑی مشکل میں ڈالا ہوا ہے اور عملا کشمیر اور شہریت بل کی صورت میں مودی حکومت سیاسی دباؤ میں بھی نظر آتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب ریاستی ادارے خاموش یا اے بسی کا پیش کریں تو کوئی بڑے نتائج ممکن نہیں۔

امریکہ سمیت عالمی دنیا کے بڑے طاقت ور حکمران اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے باعث بھارت کے خلاف کوئی بڑی آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور ان کا طرز عمل محض بیان بازی تک محدود ہے۔ جب تک عالمی دنیا بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں یا کشمیر کی عملا نظر آنے والی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرتا ہے تو یہ خود ایک بڑی مجرمانہ جرم کے طور پر سمجھا جائے گا اور یہ عملا عالمی دنیا کے دوہرے معیارات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

جبکہ اس کے برعکس امید کا پہلو یہ ہے کہ عالمی دنیا کا میڈیا اور عالمی سطح پر موجود بڑے طاقت ور تھنک ٹینک یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا دانشور طبقہ بھارت کی ہندو انتہا پسندی پر مبنی سیاست اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتی طبقہ پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھا کر بھار ت کی انتہا پسندی پر مبنی جارحیت کو بری طرح بے نقاب کررہا ہے جو بھارت کو اور زیادہ سیاسی تنہائی میں مبتلا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments