ناکام کھلاڑی اور سلیکٹر کا امتحان


میرا ماننا ہے کہ حکمرانوں کو ہمیشہ تنقید کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کچھ ان کی خواہشات بھی ہوتی ہیں کبھی انہیں بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں جس طرح ہمارے حکمرانوں نے جاں فشانی سے کام کیا ہے اور اپنے آرام کا خیال نہیں رکھا اس کی مثال حالیہ تاریخ میں مشکل سے ہی ملے گی۔ لہذا کچھ آرام کے لیے فرصت ضروری تھی اس لیے ہمارے حکمران نے جھل مگسی کا رخ کیا جہاں آج کل بہار کا موسم ہے اور شکار بھی مل جاتا ہے۔

پھر جب گھر والوں کو دعوت ملی ہو تو گھر کے سربراہ کا بھی ہمراہ جانا ہمارے بلوچستان کی روایات میں شامل ہے تو پھر یہ فرصت کے لمحات خاندانی ملاقات کا بہانہ بھی بن جاتے ہیں۔ بھئی آخر امریکہ کا صدر بھی چھٹیوں پر جاتا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ میں گالف کھیلتا ہے۔ اور کسی سے ملاقات کرنی ہو تو وہ بھی کر لیتا ہے۔ لیکن کیا کروں ساری زندگی کام کے عادی میڈیا اور صحافی حضرات کو یہ فرصت اور چھٹی ہضم نہیں ہوئی اور تنقید کے تیر برسانے شروع کر دیے کہ ملک آفت میں مبتلا ہے اور وزیراعلی بلوچستان پکنک منا رہے ہیں۔ شکار کھیلا جا رہا ہے۔

پھر مجبورا اپنی فیملی کوتنہا چھوڑ کر ہمارے پیارے نیک اور صالح وزیراعلی کو گنداوہ جھل مگسی اور نصیرآباد میں مختلف جگہوں کا دورہ کرنا پڑا اور سند کے طور پر ان کی تصاویر بھی ٹویٹ کرنا پڑیں۔ معروف صحافی طلعت حسین کو بذریعہ ٹویٹ فرمایا کہ آپ اپنی انفارمیشن کی درستگی کر لیں میں تو ان جگہوں پر ان انتظامات کو دیکھ رہا تھا کہ جو میں نے اپنے دور حکومت میں وینٹی لیٹر اور نیبولائزرز ہسپتالوں میں مہیا کیے ہیں وہ درست حالت میں ہیں یا نہیں۔

ڈاکٹرز اور نرسز بھی موجود ہیں یا نہیں۔ لیکن میرے دوست موٹا بھائی کی اس بارے میں نظر کچھ یوں ہے کہ یہ کیسا عالم ہے کہ جس کے مناظر نہ تو سیلیکٹڈ اور ہی سلیکٹر دیکھنا پسند کرتا ہے لیکن وہ دیکھے بھی کیوں؟ کیونکہ ایک تو اس بیماری کے مریض جن کے نزدیک جاتے ہوئے ہی بیماری لگنے کا وہم شروع ہوتا ہے اور خدانخواستہ ان عظیم ہستیوں میں سے کسی کو یہ بیماری لاحق ہوئی تو یہ بہتر جانتے ہیں کہ اس کے علاج معالجے کی سہولیات یہاں کیا ہے۔

کوئٹہ کو چھوڑ کر بلوچستان کے باقی کسی بھی ہسپتال میں کہیں بھی وینٹی لیٹر نہیں ہے نیبولائزرز اگرچہ اتنے مہنگے نہیں ہیں لیکن ان کی دستیابی بھی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتالوں میں ایک دو سے زیادہ نہیں ہو گی۔ بلکہ گنداواہ اور جھل مگسی کے ہسپتالوں میں تو شاید کوالیفائڈ ڈاکٹر بھی ایک آدھ ہی ہو گا۔ کوئٹہ میں انتظامات پورے نہیں ہو رہے اور موصوف گنداواہ، جھل مگسی کا دورہ کرنے پہنچ گئے۔ اگر وزیراعلی صوبائی دارالحکومت کے قریب ترین قصبوں کچلاک اور کول پور کا ہی دورہ کر لیتے تو انہیں اپنے محکمہ صحت کی صورتحال سے مکمل آگاہی مل جاتی اتنی دور فیملی کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر آنے کی کیا ضرورت تھی۔

جب موٹا بھائی مجھ سے یہ بات کر ہی رہے تھے تو ایک خبر آئی کہ ژوب سے کورونا کے ایک مشتبہ مریض کو ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔ موٹا بھائی نے سوال کیا کہ مریض کو اسی طرح منتقل کیا جا رہا ہو گا جیسا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں؟ ان کے بقول تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بلوچستان میں کل وینٹی لیٹرز کی تعداد 34 ہے جس میں 12 فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ، 7 بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ، 8 سول ہسپتال کوئٹہ اور 7 شیخ زید ہسپتال کوئٹہ میں ہیں جبکہ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کسی بھی ضلع کے سرکاری ہسپتال میں وینٹی لیٹر دستیاب نہیں ہے۔

اگر بلوچستان کی 1 کروڑ 23 لاکھ آبادی میں 5 ہزار افراد کرونا وائرس سے پیچیدگیوں کا شکار ہوگئے تو یہ 34 وینٹر لیٹرز سمندر کے سامنے پانی کے ایک قطرہ کی مانند ہوں گے۔ اب جب ان کو سیاسی سکور کا خیال آیا تو اخبار میں وینٹی لیٹر اور دیگر آلات کی خریداری کے لئے مالی قوانین میں نرمی کرکے اشتہار دیا گیا تاکہ مارکیٹ سے وینٹی لیٹر خرید سکیں تاہم یہ گاڑی نہیں جو کوئی چند دن میں سیکھ کر چلا سکے بلکہ اس کے لئے اعلیٰ تربیت یافتہ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کی ضرورت ہے جنہیں وینٹی لیٹر چلانے کی خاص مہارت حاصل ہو۔

یہ خریداری اس وقت کی جارہی ہے جب حکومتی نا اہلی کی وجہ سے مارکیٹ میں 150 روپے کے سرجیکل ماسک کا ڈبہ 750 میں فروخت ہورہا ہے یعنی طبی آلات کی قیمتوں میں 500 سے 600 گنا اضافہ ہوا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ گزشتہ سال مشینری اور ادویات کی خریداری کے لئے مختص کیے گئے اربوں روپے نا اہلی کی وجہ سے لیپس ہوگئے۔ جبکہ اس سال 20۔ 2019 میں مشینری اور ادویات کی خریداری کے لئے 2 ارب 34 کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں جو کہ ابھی تک سرخ فیتہ کا شکار ہیں اور کوئی امکانات نہیں کہ جون تک خریداری مکمل کی جاسکے۔

موٹا بھائی کہتے ہیں کہ ناکام ٹیم نے سلیکٹر کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ وہ ٹیم بدل کرمزید میچز کھیلنا چاہتے ہیں یا ہٹ دھرمی کرتے ہوئے ناکام کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کھیلنا چاہتے ہیں۔ اب بھلا میرے پاس ان سوالوں کا کیا جواب تھا۔ بس خاموشی میں عافیت جانی اور دعا کرنے لگا کہ یا اللہ اور کرونا کے مریض نہ ہوں ورنہ تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سے کون اور کتنا متاثر ہوا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments