اعتکافِ خوف اور تجدید ِالَست


یہ چند دنوں میں کیا ہواکہ روئے زمین کے سارے منظر ہی بدل گئے۔ موحد، ملحد، لبرل، سیکولر، مومن، کافر، پنڈت، پاپ، پیر، عامل، طبیب اور سائنسدان اللہ کے حضور سبھی بے بس اور لاچار ہیں۔ زندگی کی معنویت بدل چکی ہے۔ انسان مقید اور پرندے آزاد ہیں اور انسان، انسان سے خائف ہے۔ ایسا خوف کہ عالم خوف کا دیکھا نہ جائے۔ گویا وبا کے خوف سے تحکیمِ اعتکاف صادر ہے۔ یہ خوف اور بھوک بھی عذاب کی قسمیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی انسانیت ایسی بے شمار آفات اور وبائیں جھیل چکی ہے۔

1337 ء سے 1349 ء تک طاعون کی بیماری سے کروڑوں افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس وبا کو بلیک ڈیتھ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح ہیضہ، گردن توڑ، چیچک، ملیریا، ڈینگی، سوائن فلو، سپینش فلو، ایشیا فلواور جذام نے بھی کروڑوں لوگوں کی جان لی۔ سو سال قبل برضیر سمیت دنیا میں پھر طاعون نے تباہی پھیلائی۔ کرونا بھی ایسی وباؤں کا تسلسل ہے۔ یہ کھانسی سے پھانسی تک کا تیز ترین سفر ہے۔ اللہ انسان کو غوروفکر کی تلقین کرتا ہے۔ خداتو ساری مخلوق کا ہے، کسی کا سگا یا سوتیلا خدا نہیں ہے۔

یہ ہم ہیں کہ تفریق کرتے ہیں۔ ہم تو ادیان کی روح سمجھے بغیر اپنی جہالتوں کودینی اعمال قرار دیتے ہیں۔ آج اس خوفناک صورت حال میں ایسے لوگ اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں جھونک رہے ہیں اور حقیقی تدابیر کو پس ِ پشت ڈال رہے ہیں۔ طوفانِ نوح میں بھی اللہ نے کشتی بنانے کی تدبیر کی ہدایت کی۔ جنہوں نے مذاق بنایا، تباہ ہوئے۔ بہت سے طبقات، مذہبی تقاریب اور مقامات مقدسہ کی بندش پہ نالاں ہیں۔ حالانکہ طوافِ کعبہ پہلے بھی کئی بار معطل رہا ہے۔

حجاج اور یزید کے حملوں میں بھی طواف کعبہ رکارہا۔ قرامطہ نے تو کعبے کو مسمار ہی کردیا اور حجراسود بھی اٹھا کر لے گئے۔ انسانیت خطرے میں ہو تو قوانین بدل جاتے ہیں۔ پھر رسالت مآب نے دنیاوی تدابیر کو ہر موقع پر اپنانے کی نصیحت کی ہے۔ بخاری میں ہے کی آپ نے طاعون والے علاقے میں جانے سے منع فرمایا۔ آپﷺ نے بیمار اونٹ کو تندرست اونٹوں سے الگ رکھنے کی تاکید کی۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک جذامی سے ملاقات سے اجتناب برتا۔

حضرت یوسف نے بھی قحط کے پیش نظر غلہ محفوظ کرنے کی تدبیر کی۔ پر ہمارے ہاں لوگ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے۔ یہاں اک فرضی کہاوت بر محل ہے کہ کسی علاقے میں وبا پھوٹی تو لوگوں کو نقل مکانی کا کہا گیا۔ ایک درویش بضد رہاکہ وہ کہیں نہیں جائے گا اوراس کا خدا اسے بچائے گا۔ سب ذمہ داران نے اسے سمجھایا مگر بے سود۔ آخر وہ مر گیا۔ رب سے جا کر شکوہ کیا کہ وہ اسے بچانے کیوں نہیں آیا تو اسے بتایا گیا کہ میں تو تمہیں کئی بار بچانے آیا۔

کبھی ہمسائے کے ذریعے تو کبھی پولیس کے، مگر تو خود ہی مرنا چاہتا تھا۔ یہی لمحہ فکریہ ہے کہ ہر وبا اور آفت میں ایسے لوگوں نے تدبیر کی بجائے صرف دعاؤں پہ اکتفا کیا۔ تعجب تو یہ کہ انسانیت کی خدمت کرنے والے سائنسدانوں کوزنداں میں ڈال کر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ تاریخ گواہ ہے ہر آفت، ہر وبا کا مقابلہ کاہنوں، جادوگروں اور عاملوں کی بجائے انہیں معتوب سائنسدانوں نے کیا۔ یہ الگ بات کہ خالق انسا نوں کو نئی سے نئی آزمائشوں میں ڈالتا رہتا ہے۔

یاد رہے کہ فرشتوں پر انسان کی برتری کو صرف علم کی وجہ سے جسٹی فائی کیا گیا ہے۔ ان آفات کے انسانیت کے لئے مثبت پہلوبھی ہیں۔ ایسے معاملات میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ آگے کی منصوبہ بندی کی ترغیب ملتی ہے۔ بیماریوں، آفات اور موت کا خوف انسان کو نئی نئی راہیں دکھاتا ہے اور ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے میں انسانیت تہذیبوں کے تصادم اور اپنے تعصبات بھلا کر ا ایک ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں آلودگی میں کمی ہوئی ہے۔

غیر ضروری سرگرمیاں، تقریبات اور پاکھنڈبازیاں بھی کم ہیں۔ اپنے مالک و خالق کی جانب رجوع کا عنصر دیکھا جارہا ہے۔ گویا ایسی آفات بگڑتی ہوئی انسانیت کے لئے مجدد کا کام بھی کر جاتی ہیں۔ ایسے میں لائف سٹائل، خورو نوش اور فطرت سے دوری کا احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ صورت حال اللہ کی طرف سے انسانیت پر ”فردِ جرم“ ہے۔ کیونکہ انسان شبِ تارِ الست کے سب ”وچن“ بھول چکا ہے۔ لادین تو اس کے وجود کے منکرہیں اور اہلِ مذاہب اپنے اپنے دین بنا چکے ہیں۔

کوئی خود خدا بنا ہے تو کسی نے اور خداؤں کی پوجا شروع کردی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کا سب سے بڑا گناہ شرک اور سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہے۔ آج انسان اللہ سے بغاوت کرکے یہ دونوں گناہ دھڑلے سے کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اللہ کے حضور ہندو، مسلم سکھ، عیسائی، یہود، بدھ، لبرل اور لادین سب برابر ہیں اور سارے ہی جھنجوڑے جارہے ہیں شاید اسی بہانے اللہ عزوجل ایک پھر اپنے بندوں سے عہدِ الَست کی تجدید چاہتا ہے۔

آئیں اپنے رب سے اپنی سرکشیوں کی معافی مانگیں۔ عہد کریں کہ ہم رحم دل انسان بنیں گے۔ ہمارے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں گے۔ اس کے حکم کے مطابق کائنات کی تسخیر کرکے انسانیت کی خدمت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ رہی بات تدبیر، دوا اور دعا کی تو ہر صورت حال کے مطابق تدبیر کرکے اس کے موئثر ہونے کی دعا کرنا ہی فرامینِ الہٰی ونبوی ہیں۔ اگر اللہ چاہے گا تو دعا قبول کرکے ہماری تدبیر کامیاب کردے گا۔ نہ چاہے گا تو ہر تدبیر بھی الٹی ہوجائے گی۔ غرض اس وبائی اعتکاف نے ہر انسان کو اپنے رب سے تجدیدِ ِ الَست کا موقع دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہم کس نیت اور کس خلوص سے ”بَلیٰ“ کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments