وائرس سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے


اکیسویں صدی میں انسان جہاں عقل کو حیران کردینے والی ایجادات اور ترقی کو چھو چکا ہے وہاں آج بھی بہت سی نت نئی بیماریاں اور مشکلات گویا نسل انسانی کی دشمن بن کر کھڑی ہیں۔

31 دسمبر کے دن جہاں دنیا بھر میں لوگ نئے سال کی تیاریوں میں مشغول تھے وہاں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ووہان کی شہر تاریخ تقریباً 3500 سال پرانی بتائی جاتی ہے، آج چین کے صوبہ ہوبائی (Hubei) کا دارالحکومت ہے۔ ووہان میں تقریباً 146 کے قریب جھیلیں موجود ہیں اور یہی شہر وسطی چین میں نقل و حرکت کا مرکز مانا جاتا ہے لیکن اس شہر کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ چار پاکستانی طلبہ بھی اس جان لیوا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

عام طور پر جب کوئی نئی بیماری آتی ہے تو برسوں بعد اس پر تحقیق کے مراحل کو حتمی جامع شکل میں حل کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے لیکن کرونا جیسے مہلک وائرس کے پھیلتے ہی دنیا بھر کے سائنسدان حرکت میں آگئے۔ چین سے 16 ہزار کلومیٹر دور امریکی شہر سین ڈیاگو میں سائنسدان ہنگامی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ چین نے وائر س کے جینیٹک کوڈ کی تفصیلات آن لائن فراہم کردی ہیں۔ ڈاکٹر کیٹ براڈرک کے مطابق کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کا عمل اگلے روز سے ہی شروع کردیا گیا اور ان کے مطابق یہ ویکسین گرمیوں تک تیار کرلی جائیں گی۔ ڈاکٹر کیٹ براڈرک کے مطابق ماہرین پہلے ہی ایک دوسرے کرونا وائرس کی ویکسین پر کام کررہے تھے۔ انہوں نے وہی ڈی این اے ٹیکنالوجی نئے وائرس کے لئے استعمال کی ہے۔

وائرس سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ چین میں اس وبا کا انجام کیا ہوگا؟ اس وائرس کی شکل ہالے کی سی ہے۔ یہ وائرس کوئی نیا وائرس نہیں ہے۔ بدلتے وقت اور بدلتے حالات کے ساتھ جہاں انسان اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں لے کر آیا تو ویسے ہی وائرس بھی اپنے اندر تبدیلیاں لاتا گیا۔ کسی جاندار کا ماحول کے اثر یا دوسرے دیگر اثرات کی وجہ سے اپنے جینیاتی ساخت میں تبدیلیاں لانا سائنسی اصطلاح میں میوٹیشن کہلاتا ہے۔ اس میوٹیشن کی وجہ سے اس وائرس کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے اوریجنل وائرس سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے۔

ایسی میوٹیشن کے نتیجے میں ماضی میں بھی نسل انسانی کو کرونا وائرس کی دو خطرناک اقسام کا سامنا کرنا پڑا جو جانوروں سے انسانوں میں منتققل ہوئے تھے۔ سارس (SARS) کی تباہی کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔ سارس وائرس بلیوں سے اور مرس (MERS) وائرس اونٹوں سے پھیلا تھا۔

2002 ء میں یہ وائرس وبائی امراض کی طرح پھوٹے جس کی وجہ سے چائنہ سمیت سترہ ملکوں میں سات سو سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ کرونا وائرس چین کے شہر ووہان کی ایک گوشت مارکیٹ سے رپورٹ ہوا۔

کرونا وائرس کی علامات وہی ہوتی ہیں جو کسی بھی وائرس والے زکام کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی کھانسی، بخار، نزلہ، آنکھ اور ناک سے پانی کا بہنا لیکن اس کے ساتھ یہ گردوں اور پھیپھڑوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس سے ایک ہفتہ کے اندر اندر انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

عموماً جانوروں اور پرندوں میں بہت ساری ایسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جن کے خلاف لڑنے کی قوت مدافعت صرف انہی جانوروں اور پرندوں کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اگر بیماری کی حالت میں ان جانوروں یا پرندوں کا خون بہائے بغیر ان کو کھایا جائے تو یہ بیماری انسان میں منتقل ہوجاتی ہے لہذا انسان کا قوت مدافعت (Immune System) کا نظام جانوروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے اس لئے جلد ہی انسان ان بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں حلال غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کے پچاس فیصد خطرناک ترین وائرس چمگادڑ، بندر، یا سور کے ساتھ رہنے والے باڑے کے دوسرے جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

وائرس کو اپنی بقا کے لئے میزبان سیل (Host cell) کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وائرس اپنی متعدد کاپیاں بناتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وائرس میزبان سیل (Host cell) کے آر۔ این۔ اے (RNA) سسٹم اور پروٹین سیل کو استعمال کرتا ہے۔ کرونا وائرس اپنا اثر بہت تیزی سے دکھاتا ہے اور دل، پھیپھڑوں، گردوں اور معدہ کو شدید متاثر کرتا ہے۔ ابھی تک کرونا وائرس کی فی الفور ویکسین موجود نہیں ہے۔

اگر چہ کچھ احتیاطی تدابیر ہیں جس میں ہاتھوں کا بار بار دھونا کیونکہ اس انفیکشن میں بار بار چھینکیں آنے سے چھینک کے قطر ے ہاتھوں پر چپک جاتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ اگر کوئی بھی وائرل انفیکشن ہو تو اپنے ناک اور منہ کو ماسک سے ڈھانپ کر رکھنا، کسی بھی گوشت اور انڈے کو اچھی طرح پکا کر استعمال کرنا۔ وبا والے علاقوں میں سفر سے گریز کرنا۔

چین کے شہر ووہان میں پانچ سو کے قریب طلباء موجود ہیں۔ بہت سے ممالک نے اپنے طلباء کو وطن واپس بلالیا ہے۔ کرونا وائرس کے ممکنہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو بہتر اقدام اٹھانے چاہیے اور کسی بھی صورت کرونا وائرس جیسے سنگین مسئلے کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ وائرس سرحدوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ اللہ عرض پاک کو اس کرونا وائرس سے محفوظ رکھے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments