فیض صاحب: شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی


\"annie-web\"فیض صاحب عموما سیاستدانوں کے مداح نہیں ہیں۔ ان کے متعلق خوش فہمیاں نہیں رکھتے۔ (ان کا خوب تجربہ ہے) لیکن چند ہستیاں مستثیٰ ہیں۔ میاں افتخار الدین سے ان کا بہت گہرا رابطہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے میاں صاحب نے محسوس کر لیا تھا کہ پاکستان کس سمت جا رہا ہے۔ انہوں نے تبھی جدوجہد کی کوشش کی لیکن ایسے لوگ کی مخالفت کی وجہ سے ذاتی مفاد اور بددیانت حصول اقتدار جن کا واحد مقصد تھا میاں افتخارالدین کی کاوش ناکام رہی اگر پاکستان کے وجود میں آنے کے فورا بعد آزاد پاکستان پارٹی کو مسلم لیگ کے ملبے پر استوار کرنے کے مواقع دیے جاتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی فیض صاحب سہروردی کے متعلق بڑے پیار سے بات کرتے میں نے ان کو یاد دلایا کہ سہروردی کے انتقال کے موقع پر ایک مغربی اخبار نے مجھے اس کا نام یاد نہیں آرہا ہے لکھا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو دو چیزوں نے ایک دوسرے سے منسلک کر رکھا تھا ایک حسین شہید سہوردی اور دوسری پاکستان انٹرنیشنل ایر لائنز۔ اخبار نے مزید لکھا کہ پتہ نہیں پی آئی اے دونوں حصوں کو کب تک اکٹھا رکھ سکے گا۔ ممتاز حسن مرحوم کہا کرتے تھے۔ اگر یہ West Wingہے۔ اور وہ East Wing تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چڑیا کہاں ہے؟ میں نے بھی ان سے پوچھا۔ اگر ان کو اس سوال کا جواب معلوم تھا۔ خاموش رہے۔ فیض صاحب نے ایسا لگتا ہے ساری زندگی دوستیاں استوار رکھنے میں گزاری ہے۔ ایک دفعہ جو ان کے حلقہ احباب میں شامل ہو جائے اس کے لئے ان کی محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ لندن میں ایک شام ہمیشہ فیض الحسن چودہری کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ”حمید اختر کا لدھیانوی کراؤڈ “ مجھ سے تشریح کی پچھلی مرتبہ جب فیض صاحب کی لڑکیاں بھی لاہور سے آئی ہوئی تھیں فیض نے الحسن صاحب کے ہاں Ealing میں ایک طویل شامل گزاری بیروت میں فیض صاحب کی طبعیت ناساز رہ چکی تھی میڈیکل ٹسٹ ٹھیک نکلے مگر ڈاکٹروں نے شراب اور سگریٹ کا کوٹا مقرر کر دیا چنانچہ فیض الحسن کے ہاں انیس اور سلیمہ اور منیزہ فیض صاحب کی چوکیداری میں مصروف تھیں۔

فیض صاحب بے تحاشا سگریٹ پیتے ہیں۔ جو برانڈ مل جائے۔ تیزی سے چند کش لیکر سگریٹ راکھدانی میں بجھا کر فورا دوسرا سلگا لیتے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ تقریبا\"faizahmedfaiz\"   غیر شعوری طور پر سگریٹ پیتے ہیں اور اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔

لیکن اس شام ایلس سلیمہ اور منیزہ کی کڑی نگرانی کہ وجہ سے موصوف کے سٹائل میں فرق آرہا تھا۔ ” ابو بیروت میں خاصے بیمار پڑ گئے تھے“ سلیمہ نے کہا۔” بھئی کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی۔“ فیض صاحب نے جواب دیا وہ اپنے متعلق ہمیشہ اس گول مول غیر واضح انداز سے بات کرتے ہیں گویا کسی اور کا تذکرہ ہو۔

پچھلے جاڑوں میں ماجد علی کے ہاں ایک بقراط فیض صاحب کو بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کا یعنی فیض صاحب کا روسیوں پر کتنا گہرا اثر ہے۔ فیض صاحب کو چاہیے روسیوں سے فرمائیں کہ افغانستان سے واپس چلے آﺅ۔

یا Diego GARCIA پر بم گرا دو یا اسی قسم کی انٹ شنٹ۔ ” ذرا ایک بات بتانے دیجے۔“ فیض صاحب نے کہا ”روسی سیاست پر سنجیدہ گفتگو یا سیاسی بحث محض پارٹی ممبروں تک محدود رکھتے ہیں۔ میں پارٹی ممبر نہیں ہوں۔ کبھی نہیں رہا یہ ان کے لئے بہت اہم چیز ہے اگر آپ بردارانہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ہیں تو آپ سے ان کا برتاﺅ مختلف ہو گا۔ تب آپ ان سے ایک دوسری سطح پر بات کریں گے۔ آپ اسے انکا HANG-UP کہیں یا کچھ اور بہرحال پارٹی ان کے لئے فوقیت رکھتی ہے میری وہ بہت عزت کرتے ہیں بہت اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ کیونکہ میں ایک شاعر ہوں اور لینن پیس پرائز حاصل کر چکا ہوں۔ لیکن سیاسی گفتگو وہ پارٹی ممبروں کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ “ ایک صاحب کا خیال تھا کہ فیض صاحب اپنی مرضی سے ماسکو کے چکر لگاتے رہتے ہوں گے۔ جواب دیا۔ ”نہیں بھئی روسی بڑے تکلف لوگ ہیں اور \"faiz-ghar-resurrecting-our-language-art-and-culture\"ان معاملات میں ضابطے کے پابند جب وہ باقاعدہ مدعو کریں تبھی کوئی وہاں جاتا ہے ایسا نہیں کہ ماسکو ائیر پورٹ پر جا اترے اور فون کیا اوہائی ساشا۔ میں آگیا، آ کر مجھے پک اپ کر لو۔ لاﺅنج میں بیٹھا ہوں۔“

میں فیض صاحب کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی وساطت سے وہ میرے والد کے دوست تھے۔ تاثیر میرے والد ڈاکٹر نور حسین کشمیری کے پرائے اور گہرے دوست تھے۔ مجھے بچپن کی یاد ہے، فیض صاحب گلبرگ میں ہمارے ہاں آئے تھے ہمارے درمیان ایک نوع کا باپ بیٹے کا رشتہ استوار کر چکا ہے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ تقسیم کے بعد ہم لوگ سیالکوٹ میں آبسے جو فیض صاحب کی رگ و پے میں بسا ہوا ہے۔ یہیں وہ پلے بڑھے اسکول اور کالج گئے۔ ان کے والد انہیں مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی کی خدمت میں لے گئے تھے انہوں نے پہلے پہلے مولوی میر حسن کے مکتب میں اور اس کے بعد مرے کلج میں عربی پڑھی مولوی ابراہیم سے قرآن حدیث اور فقہ کا درس لیا لندن میں مجھے بتایا کہ مولوی ابراہیم اس وقت ہندوستان کے جید ترین علماء میں سے تھے۔

فیض صاحب نے پچپن میں قران شریف حفظ کرنا شروع کیا اور تقریبا نصف حصہ حفظ کر لیا وہ ہمارے آدھے سے زیادہ ملاﺅں سے بہتر علم کلام مجید کا رکھتے تھے۔ اور اس کے حوالے دیتے رہتے تھے۔\"faizs-wife-alys\"

چند سال قبل وہ سیالکوٹ واپس جانا چاہتے تھے اس شہر کی اندھیر پیچیدار پتھریلی گلیوں کے لئے شدید نوسٹیلجیا ہے۔ اہل سیالکوٹ اب بھی ان کو اپنا بیٹا گردانتے ہیں۔ فیض کے لڑکپن کے ایک چہیتے دوست خواجہ فیروز الدین فیض کا چند سال قبل انتقال ہو گیا۔ خواجہ صاحب مرحوم نے فیض کا نام تک اپنے نام میں شامل کر لیا تھا۔ ویسے سیالکوٹ میں وہ اپنے انگریزی نما انداز اور گورے چٹے رنگ کی وجہ سے فیروز ٹامی کہلاتے تھے۔ لندن میں ایک بار مجھے فیض صاحب نے بتایا کہ کالج میں ان کا مضمون ایسا عمدہ سمجھا گیا تھا کہ اسے نوٹس بورڈ پر لگا دیا گا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور مضمون علمیت سے بھرپوررقم کیا لیکن اسے بہت کم نمبر ملے ان کے انگریز استاد نے کہا ”پہلا مضمون جو تم نے لکھا ادریخیل تھا اس مرتبہ تم نے دوسروں کے خیالات دہرا دیے ایسا نہ کرو اوریجنل ذہن و دماغ کے مالک ہو، دوسروں کی تقلید نہ کرو۔“

میرا خیال ہے فیض نے کبھی دوسروں کی کہی ہوئی باتیں نہ دھرائیں۔ میں نے اکثر ان سے کہا ہے کہ کلاسیکل اردو شاعروں کا ایک انتخاب تیا رکریں۔ انہوں نے کیا تھا لیکن اس کا مسودہ نقل موجود نہیں تھی ایک خاتون لے گئیں جو نیو یارک میں رہتی تھیں پھر ان محترمہ نے شادی کر لی اور مسودہ گنوا دیا۔ ثابت ہوا کہ شاعری اور شادی ایک دوسرے کو راس نہیں آتے۔

(انگریزی تحریر: خالد حسن)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments