علامہ ضمیر اختر نقوی: مرشد ازالہ کیجئے، غصہ نا کیجئے


جیسے جیسے کورونا وائرس پاکستان میں پنجے گاڑ رہا ہے ایک بیچینی کی سی صورتحال ہوتی جا رہی ہے۔ حکمران طبقے سے لے کر ہر بڑے اور چھوٹے طبقے میں یہ بیچینی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بات تو سچ ہے کہ تمام بیماریوں سے منفرد اور محلق قسم کا وائرس ہے۔ ایسی بیماری ہے کہ کوئی تیمارداری کو تیار نا ہو، ہو بھی کیسے اس بیماری کے مریض سے دور رہنا بہتر ہے۔ اگر آپ بچنا بچانا چاہتے ہیں تو دور دور رہیے۔

جیسے اس بیماری کی شروعات ہوئی تو ہمارے اعلی قسم کے طبیب علاج کے ساتھ اپنی دکان پر بیٹھ کر ویڈیو بنا کر تو کہیں پوسٹ لگا کر سوشل میڈیا پر پھینک کر اپنے لاکھوں فالوئرز کو دلاسا دیتے پایے گئے کہ کفار تو ہماری بات نہیں مانیں گے لہذا آپ جب بیماری میں مبتلا ہوں تو ہم بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایسے ہی ان مسنون دعاوں، احادیث درورد وظائف کے بیچ مرض تھا کہ ملک کو اپنے لپیٹ میں لے گیا۔ اسی دعائیہ سیکیورٹی کے بیچ سے کسی جگہ سے یہ وائرس شگاف لگا کر پاکستان میں پہنچ ہی گیا۔

شروعات میں یہ مرض چائنہ میں تھا تب یہاں کچھ الگ سی باتیں سننے کو مل رہی تھیں کہ بھئی یہ چائنیز لوگوں ایغور مسلمانوں کو پردہ نہیں کرنے دیتے تھے اس لیے خدا نے سب کو نقاب ”ماسک“ اور وضو کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ماسک تو ڈسٹ اور وائرل وائرسز سے بچاؤ کے لیے پہنتے ہیں ہیں سب باقی جہاں تک وضو کی بات ہے تو اس کا مطلب صفائی جانا جاتا ہے تو ان کے بھی گھر گلیاں دیکھ لیں اور اپنے بھی۔ اور جناب پاکستانیوں نے کیا قصور کیا تھا وائرس یہاں کیسے پہنچا؟

جیسے ہی وائرس کے کیسز پاکستان میں بڑھنے لگے تو اس کو لانے والے اکثر لوگ وہی تھے جو ایران زیارتوں کے سلسلے میں گئے تھے واپسی پر اکثر لوگ وائرس میں مبتلا ہوگئے۔ اور تفتان بارڈ پر انہیں اکٹھا کرنے کے بعد سندھ منتقل کیا گیا بعد میں کچھ کو ڈیرہ غازی خان۔ جب یہ بات عیاں ہوئی کہ یہ وائرس سب اہل تشیع بہن بھائی لے کر آئے ہیں تو مجاہدین کی توبوں کا رخ شیعہ کی طرف ہو گیا اور گولا باری جاری ہوگئی۔ جب بارہ کہو میں تبلیغی جماعت کے کچھ افراد میں وائرس پازیٹو آی تو اہل تشیع نے سکھ کی سانس لی۔

سندھ حکومت بالخصوص وزیراعلی مراد شاہ نے اچھے اقدام اٹھائے۔ وفاقی لیول پر جو سب سے بڑا اور بروقت اقدام تھا وہ مولانا طارق جمیل کی دعا تھی۔ آپ کو کون سی دعا چاہیے پولیس، ایف بی آر، مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی دعا دستیاب ہے۔ رقت آمیز دعائیں بھی دستیاب ہیں جن میں سامعین کے رونے کی گارنٹی ہے البتہ وہ بیان یا مقصد پر عمل کریں یا نا کریں یہ کوئی گارنٹی نہیں۔

جب کہ سارے چینلز پر علماء کرام سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ ابھی تک وہ بھی ان چند مسنون دعاوں کے علاوہ گھروں میں اذان دینے کے سوا کوئی حل نہیں نکال سکے۔

اس بیچ علامہ ضمیر اختر نقوی جو اپنی زندگی کی کل کمائی میں سے نیپال سے لوگوں کو زندہ کروانے والے ریسرچ پیپرز سے لے کر دنیا کے بڑے فلسفی سقراط کو اہل بیت کے غم میں زہر کا پیالا پلا کر، لڈن جعفری سے لے کر بنی نوع انسان کے بڑے بڑے واقعات کو کربلا سے جوڑ کر ابھی سکون سے بیٹھے ہی تھے کہ کورونا وائرس کا جرثومہ آگیا۔ یہاں اگر علامہ ضمیر اختر نقوی جیسا محقق اسکالر بھی چپ رہے تو ملک کو آخر کس کے سہارے چھوڑا جائے۔ یہاں اس ملک میں جو بھی بڑے سائنٹسٹ ہیں ان کا تو کوئی حال نہیں۔ علامہ صاحب کا کچھ دن پہلے ایک ویڈیو بیان جاری ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی ریسرچ کی بنا پر ناول کورونا وائرس کا علاج ڈھونڈ لیا ہے۔

علامہ صاحب ہمدرد انسانیت ہیں۔ انہیں بھی قوم کا درد ہے لیکن انہیں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اسے ایک تناظر میں دیکھیں تو حقیقت بھی ہے لیکن علامہ کو گلہ یہ ہے کہ علامہ کی لڈن جعفری والی بات، نیپالی ریسرچ سے لے کر سقراط جیسے فلسفی کو اہل بیت سے عشق پر بھی شکوک ہیں۔ جن کو بہت آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ان باتوں پر تو علامہ کا غصہ بنتا ہے لیکن علامہ صاحب اگر آپ اپنا یہ سرمایہ چھپائیں گے تو دنیا جو اس وقت مشکل میں ہے یہ کسی مسیحا کی منتظر ہے۔

علامہ ضمیر نقوی صاحب سوشل میڈیا پر مکمل گرفت رکھتے ہیں۔ کون کیا کہہ رہا ہے، جانتے ہیں۔ علامہ کو پروگرام میں آنا تھا پروگرام کے میزبان نے پوسٹ لگائی اس پر جو لوگوں نے غیرسنجیدگی کے مظاہرے کیے اور ایسے کمنٹ کیے جس سے علامہ صاحب اپنے اعلان سے مکر گئے۔ اسی انٹرویو میں علامہ نے فرمایہ کہ میں مذہبی علوم، طب کے ساتھ جدید میڈیکل سائنس، دوران خون، ڈی این اے سب پر بات کر سکتا ہوں۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ وائرس کیسے پھیلا۔ یہ تب تک بتانا ممکن نہیں جب تک آپ لوگوں کو تمیز نہیں سکھائیں گے۔

یہ ناہنجار سوشل میڈیائی لونڈے اپنی ان بدتمیزیوں سے نیز عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے پورے عالم انسانیت کو مروا دیں گے۔ ان کمبختوں کو چاہیے کہ لڈن جعفری سے نیپال تک کی تحقیق کو سر آنکھوں پر رکھ کر عالم انسانیت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ صدی کے سقراط اور ارسطو جس نے خود کو پہلے ہی ان فلسفیوں سے جوڑا ہوا ہے۔ اس میڈیکل سائنس کے ان داتا، فلسفی، ماہر طب، اور مذہبی اسکالر کو ایک موقع دیں۔ ایسا نا ہو کہ آپ کا یہ غیرسنجیدہ طرز عمل اس عالم انسانیت کو لے ڈوبے۔

علامہ ضمیر نقوی صاحب آپ میری کالی مونڈی داڑھی کی طرف دیکھیں، یہ لونڈے کبھی باز نہیں آئیں گے آپ پر اس وقت عالم انسانیت کا ذمہ ہے۔ آپ کے اس دعوے سے عالم انسانیت میں جان آگئی ہے آپ اپنے اہل خاندان کو تو بتا رہے ہیں، عام انسانوں کا کیا قصور ہے؟ دیکھیں سقراط اور ارسطو سے ابن رشد تک، جتنے بھی فلسفی کیمیادان، فزکس کے ماہر تھے ان کے ساتھ بھی ایسے لوگوں نے حرکتیں کیں، لیکن کسی نے بھی برا نہیں مانا، اپنا فلسفہ دے گئے۔ آپ بھی ایسا کیجیئے۔ افکار بھائی سے معذرت کے ساتھ

”مرشد ازالہ کیجئے۔ غصہ نا کیجئے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments