ہمارا کُھویا ہوا خالص پن اور ملاوٹ زدہ غلیظ معاشرہ


انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک بالکل خالص حالت میں ہوتا ہے اُس کے گرد و نواح میں موجود لوگ اس میں ملاوٹ کی بوٹی کو لگاتے ہیں جو آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہوئے اُسے اپنی حقیقت سے دور ’بہت دور بھٹکا دیتی ہے۔

اُسے احساسِ برتری اور احساسِ کمتری سے روشناس کروا کر تکبر اور حسد کو جنم دیتی ہے اور اس کی کونپلیں انسان کی شخصیت کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا آپ ان کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔

اور وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ وہ اپنی حقیقت کو بھلا کر ملاوٹ کو تہہ در تہہ اپنے اوپر چڑھا کر معاشرہ کی نظر میں ایک کامیاب اور دنیادار شخص بنتا چلا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بسر کرنے کا یہی اصول ہے۔

ملاوٹ کی یہ تہیں انسان کو اپنی حقیقت سے اتنا دور لے جاتی ہیں کہ پلٹنا چاہنے پر سالوں بیت جاتے ہیں مگر زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب وہ اپنی حقیقت کے رو برو کھڑا ہوتا ہے اس لمحے انسان کو صدیوں پرانی کھوئی ہوئی وہ خوشی ملتی ہے جس کو وہ میلوں بھٹک کر کھوجتا ہے اب یہ اُس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ اِس خوشی کو کب تک سنبھالے رکھے۔

زیادہ دیر سنبھالے رکھنے سے اس کا کھویا ہوا خالص پن بحال ہو جاتا ہے جو کہ معاشرے میں بغاوت کرنے کے مترادف ہوتا ہے جس سے وہ معاشرے کے بنائے گئے اصولوں کو توڑ کر اپنے دل کی سننے اور ماننے لگتا ہے جو معاشرے کو کسی صورت منظور نہیں ہو سکتا تو ایسے میں انسان ایک درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دو زندگیاں جینا شروع کر دیتا ہے ایک معاشرے میں رہنے کے لیے اس کے بنائے گئے اصول اور ضرورت زندگی کا ساز و سامان اکٹھا کرنے کی تگ و دو میں جینا اور دوسرا اپنے اندر کی خوشی اور اطمینان کے لئے جینا ’دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے جتنا تیل میں ڈوبی خشک لکڑی کو آگ لگا کر راکھ ہونے سے بچائے رکھنا مگر یہی وہ طریقہ ہوتا ہے جس سے انسان خود کو مطمئن رکھ پاتا ہے۔

ہر جنگ میں ایک ہارتا ہے تو دوسرے کی جیت ہوتی ہے بالکل ایسے ہی اگر معاشرہ جیت جائے تو انسان کو اپنے وجود سے گھن آنے لگتی ہے ایسی بدبو جو جسم کا ایک ایک حصہ نوچ کر پھینک دینے پر مجبور کر دے اور انسان اندر ہی اندر سسک کر مر جاتا ہے یا ہمیشہ کے لیے ملاوٹ کا لبادہ اوڑھ کر یہ بھول جاتا ہے کہ کبھی وہ خالص تھا اور اگر اس کے اندر کا خالص پن جیت جائے تو اس کے اوپر چڑھی ہوئی ملاوٹ کی ساری تہیں اتر جاتی ہیں اور وہ اس طرح خالص ہو جاتا ہے جیسے پگھلے ہوئے سونے کو آگ میں جلا جلا کر کندن بنایا جاتا ہے اس کے بعد انسان کا غلیظ معاشرہ میں گزارہ ناممکن ہو جاتا ہے اس کو زندہ رہنے کے لیے اپنی ایک دنیا بنانی پڑتی ہے جس کو بنانے کے لیے مضبوط ارادہ اور محنت کے ساتھ بہت حوصلہ درکار ہوتا ہے۔

اور اگر یہ جنگ مسلسل جاری رہے تو انسان بہت اذیت کے ساتھ کھوکھلا ہونا شروع ہو جاتا ہے اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہونے کے باوجود ایسے الفاظ نہیں مل پاتے جو اس کے اندر کی کیفیت کو سہی معانی میں بیاں کر پائیں اور اکثر اوقات لفظوں کا انبار لگا کر پہروں بیٹھا رہنا پر جب انسان کچھ کہہ نہیں پاتا تو وہ ایسے طوفان کا انتظار کرتا ہے جو اس انبار کو بکھیر دے ’لفظوں کو سمیٹنا چاہنے پر بھی نہ سمیٹا جا سکے۔

آہستہ آہستہ اس کے اندر اتنی تنہائی چھا جاتی ہے کہ چشم و قلب لاکھوں میل کی مسافت پر ہونے کے باوجود ایک ایسے سانچے میں قید ہو جاتے ہیں جس کے چاروں جانب اتنا سناٹا ہوتا ہے کہ دل کے دھڑکنے کے شور سے باہر موجود دیواروں کے کان پھٹنے لگتے ہیں اور آنکھیں ان دیواروں کے پار ٹمٹماتے جگنوؤں اور نکھرتی چاندنی سے نور چراتی نڈھال ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments