آن لائن کلاسز کے نام پر چلاؤ کام نا منظور!


دنیا بھر میں کرونا وائرس ایک خوف کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا یہ وائرس پھیلتا ہوا پاکستان میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ روزانہ کرونا وائرس کے متاثرین میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے لے کر شادی ہال، شاپنگ مال اور تفریحی مقامات میں عوامی داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے البتہ سرکاری دفاتر کھلے رہیں گے۔

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے تعلیمی سرگرمیوں کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے آن لائن ایپ بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بھی موجودہ حالات کے تناظر میں اپنا ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں طلباء وطالبات اور اساتذہ کرام کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اپیل کی ہے۔ اور اس ضمن میں اساتذہ کو آن لائن لیکچر دینے اور وٹس ایپ گروپس کے ذریعہ طلباء سے جڑے رہنے کی بھی تاکید کی گئی ہے تاکہ طلباء بلا جھجک اور بنا کسی رکاوٹ کے اپنے سوالات کر سکیں اور پڑھائی میں کسی قسم کا خلل نہ آسکے۔

آن لائن لیکچر ز اور کلاسز کے حکومتی بیان کے بعد طلباء کے جانب سے قدرے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر طلباء طرح طرح کی میمز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔

”جو لوگ کلاس میں سنجیدگی سے نہیں پڑھتے وہ آن لائن کلاس میں کیسے پڑھیں گے؟ “

ایک طالب علم نے لکھا کہ ”جتنے دن آن لائن لیکچرز ہوں گے اتنے دنوں کی فیس واپس کرو یا پھر اچھا والا انٹرنیٹ پیکج ہی کروا دو“۔

ایک نے لکھا کہ ”آن لائن لیکچرز کا سلسلہ عورت مارچ کی طرح ناکام ہو چکا ہے۔ “

ساتھ ہی say no to online class# کا ہیش ٹیگ (hash tag) بھی دیکھنے میں آیا۔ اور تو اور اپنے ہی ایک محترم استاد کی جانب سے نہایت دلچسب سٹیٹس سامنے آیا۔ موصوف لکھتے ہیں کہ

” گھر بیٹھے نوکری بھی ہوگی اور عیاشی بھی ( یعنی آدھی محنت، پوری تنخواہ ) ۔ “

اس سٹیٹس کے پس پردہ بھی ایک کہانی ہے۔ جو شاید متعلقہ لوگوں کی سمجھ میں آئی ہوگی۔ مگر اس طرف مجموعی طور پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ کیونکہ ہم اور وہ آن لائن پڑھائی کی ڈِینگ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

ایک حد تک حکومت کی منطق بھی بجا ہے کہ اسی بہانے طلباء کتاب سے جڑے رہیں گے اور پڑھائی کا حرج کم سے کم ہوگا۔ مگر دوسری طرف طلباء کے احتجاج میں بھی وزن ہے کیوں کہ عموما طلباء دور دراز کے علاقوں سے بھاری فیسوں کے عوض اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ اب جب کہ ہاسٹلز بھی خالی کروالئے گئے ہیں۔ اور تقریبا تمام طلباء وطالبات اپنے گھروں کو جا چکے ہیں ایسے میں آن لائن سسٹم اتنا کارآمد ثابت نہیں ہو گا۔

جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی بلا تعطل فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس شکایت کو دور کرنے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پی۔ ٹی۔ سی۔ ایل  اور دیگر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز  کوانٹرنیٹ کی رفتار بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ بلا شبہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا یہ ایک مثبت قدم ہے مگر ایسا اتنے جلدی ممکن نہیں۔ بالفرض انٹرنیٹ کا مسئلہ حل ہو بھی جائے تو طلباء کی حاضری کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

کیا اساتذہ اپنے ریکارڈیڈ لیکچر سے خود مطمئن ہو سکے گے بھی یا نہیں؟ مذید یہ کہ لیکچرز کی ایویلیوشین کن بنیادوں پر کی جا ئے گی؟ جن طلباء کو مسائل کا سامنا ہے کیا ان کے لیے سبق دہرا یا جائے گا؟ شاید تھیوری کے آسان مضامین کے آن لائن لیکچرز پھر قابل قبول ہیں لیکن کانسیپٹ بیسڈ مضامین بھی آن لائن پڑھنا ایک بے وقوفانہ قدم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بلکہ اساتذہ کو چاہیے کہ خود آواز اٹھائیں۔ مگر وہ ایسا کیوں کریں گے؟ کچھ کو چھوڑ کر باقی اساتذہ کے لیے یہ فیصلہ کسی تحفہ سے کم نہیں۔ نوٹس گروپ میں اپلوڈ کیے اور کام ختم!

میں خود ایک طالبہ ہوں۔ اور طلباء وطالبات کے غم و غصہ اور احتجاج کو جائز سمجھتی ہوں۔ اور ان کو درپیش مسائل کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ کرونا کی وجہ سے حالات کی سنگینی کا ہم سب کو علم ہے۔ اکثریت ذہنی اضطراب اور پریشانی کا شکار ہے۔ ایسے میں نہ کوئی پڑھنے میں سنجیدہ ہے نہ کوئی پڑھانے میں۔ آن لائن کلاسز صرف وقت کا ضیاع ہیں۔ لہٰذا میری نہایت ادب کے ساتھ درد مندانہ اپیل ہے کہ خدارا حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

آن لائن پڑھائی کے جھنجٹ سے ہمیں آزاد کریں۔ اپنی روزی غلط وقت پر حلال نہ کریں بلکہ صحیح وقت کا انتظار کی جیئے۔ آپ خود لاک ڈاؤن ہو چکیں ہیں تو آف لائن بھی ہو جائیں۔ ہم غریبوں کو بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ سکون سے وقت گزارنے دیں کیونکہ دماغ کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد کرونا وائرس سے نجات دے۔ معمولاتِ زندگی بہتر ہوں۔ تب ہم بھی سنجیدگی سے پڑھیں گے اور آپ بھی شوق سے روزی حلال کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments