خوشحال خان خٹک ایک ہمہ جہت شخصیت


خوشحال خٹک کو سمجھنے کے لئے کافی پڑھنے اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہے۔ ان کی شاعری اور فن کو ایک کالم میں سمویا نہیں جاسکتا ہے۔ وہ ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں بہت سارے شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبے پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ آپ ایک نابغہ روزگار اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس پر آپ نے قلم نہیں اٹھایا ہو۔ مذہبی معاملات سے لے کر، رموزِ سیاست و حکمرانی، علم نجوم و فلکیات، فلسفہ، علمِ طب، جغرافیہ و علمِ تاریخ، اور شکار کے گُر تک بتائے ہیں۔ آپ کے آثار کی اہمیت چار صدیاں گزرنے کے باوجود کم نہیں ہوئی ہے۔ خوشحال خٹک صرف ماضی کا شاعر نہیں ہے بلکہ حال کا بھی ہے اور مستقبل میں بھی ان کی کلام کی اہمیت قائم و دائم رہے گی۔

خوشحال خان خٹک پشتو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ اور ابھی تک ان کا کوئی ہمسر پیدا نہیں ہوا ہے۔ جیسے وہ خود کہتے ہیں ”پھ فارسی ژبھ کھ نور تر ما بھتر دی، پھ پشتو ژبھ می مھ غواړھ مثال“ ترجمہ ”فارسی زبان میں اگر مجھ سے بڑے شاعر موجود ہیں مگر پشتو زبان مین میرا کوئی مثال نہیں ہے“۔ خوشحال خٹک زندگی کی طرح وسیع، کثیر الجہت، اور نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نہ صرف اپنے زمانے کے سب سے بڑے جنگجو تھے بلکہ سب سے بڑے سخن ور بھی تھے۔ خوشحال خٹک علم، سیاست، ہنر اور ادب کا بہت بڑا خزانہ تھے۔ آپ بیک وقت شاعر، فلسفی، مدبر، سیاستدان، مرد میدان، اعلیٰ پائے کے حکیم، اور شکار کے ماہر تھے۔

اب ان کی پیدائش، ابتدائی تعلیم اور زندگی کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ خوشحال خٹک اپنی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”د ہجرت زر دوہ ویشت سن و، چی زہ راغلم پہ جہان“ ترجمہ ”ہجرت کا ایک ہزار بائیس سنہ تھا کہ میں اس دنیا میں آگیا“ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خوشحال خٹک 1022 ہجری جو کہ 1613 عیسوی بنتاہے میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کا نام شہباز خان، دادا کا نام یحیٰ خان اور پردادا کا نام اکوڑی خان تھا۔ اکوڑہ خٹک خوشحال بابا کے پردادا کے نام سے منسوب ہے۔

خوشحال خٹک کا گھرانہ ایک متمول قبائلی گھرانہ تھا۔ اکوڑی خان جو ایک قبائلی سردار تھے، کو مغل بادشاہ اکبر نے علاقے کے امن اومان، مین سڑک کی دیکھ بھال اور محصولات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی اور خیر آباد سے نوشہرہ تک کا علاقہ جاگیر میں دے دیا۔ اسی مقصد کے لئے اکوڑی خان نے ایک سرائے تعمیر کی جو اب اکوڑہ خٹک کے نام سے مشہور ہے۔

اگر خوشحال خٹک کی ابتدائی تعلیم کی بات کی جائے تو یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کب، کتنی اور کہاں تعلیم حاصل کی تھی۔ ”دستار نامہ“ جو خوشحال کی نثری کتاب ہے اس میں وہ خود رقمطراز ہیں کہ ”ہمارے استاد شاہ اویس صدیقی ملتانی بہت بزرگ اور معتبر انسان تھے۔ اور علومِ ظاہری اور باطنی سے بہرہ ور تھے۔ “ استاد کامل جنہوں نے خوشحال خٹک کی سوانح حیات لکھی ہے کہتے ہے کہ اس بات کا کوئی پتہ نہیں ہے کہ استاد اویس سے خوشحال نے کب، کہاں اور کتنی تعلیم حاصل کی تھی۔ زلمئی ہیوادمل لکھتے ہیں کہ ”خوشحال خٹک کے تعلیم کے بارے میں بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے گھر، مسجد اور علاقے کی مدرسے میں میں تعلیم حاصل کی ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے کتنا وقت، اور زندگی کے کتنے ماہ وسال پڑھائی جاری رکھی!

تیرہ سال کی عمر میں پہلی دفعہ ایک قبائلی جھگڑے میں اپنے والد کے ساتھ شریک ہوئے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں پہلی شادی کی۔ شادی کے وقت وہ سخت بیمار تھے حتٰی کے گھر والے ان کی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ بعد میں صحتیاب ہوگئے۔

خوشحال کی عمر اٹھائیس سال تھی جب ان کے والد شہباز خان فوت ہوگئے۔ شہباز خان کے چار بیٹے تھے ان میں سب سے بڑا خوشحال خان تھا۔ اور قبائلی رسم کے مطابق سرداری آپ کے حصے میں آگئی۔ اور قبائلی امور نمٹانا شروع کیے۔

خوشحال خٹک نے بہت ساری شادیاں کیں جن کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ چھپن بیٹے اور اکتیس بیٹیاں تھیں۔

جو چیز خوشحال خان کو باقی شاعروں سے امتیاز بخشتی ہے وہ ہے ان کا بے مثال اور لازوال فنِ شاعری۔ وہ ہے خوشحال کی ہمہ جہت شخصیت۔ خوشحال خٹک محض ایک دنیا بیزار شاعر نہیں ہے۔ بلکہ خوشحال بیک وقت کئی میدانوں میں برسرِپیکار ہے۔ وہ ایک طرف ایک قادرالکلام شاعر ہے جنہوں نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے ہیں۔ زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس پر آپ نے قلم کشائی نہیں کی ہو۔ علم، ہنر اور قلم کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گھاڑتے ہوئے ”دستارنامہ“ لکھتے ہیں جس میں بیس سے زائد علوم و ہنر کے گُر سکھاتے ہیں خاص کر حکمرانی کے آداب بہت خوب بتاتے ہیں۔

دوسری طرف وہ مرد میدان بھی ہے جو مغل استعمار سے نبر آزما ہے اور سینکڑوں جنگوں میں حصہ لیتے ہیں۔ تیسری طرف وہ اعلٰی پائے کے حکیم ہے جو ”طب نامہ“ لکھتے ہیں اور ہر بیماری کا علاج بتاتے ہیں۔ چوتھی طرف وہ شکار کے مداح ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا کی ساری علم میری ہوتی اگر مجھے شکار سے فرصت ہوتی۔ ”بازنامہ“ لکھتے ہیں جس میں عقابوں کی اقسام بتاتے ہیں اور بیماری کی صورت میں علاج بھی بتاتے ہیں۔ مذہبی امور میں بھی آپ کو گہری آگاہی حاصل ہے۔

”فضل نامہ“ لکھ کر سارے مذہبی مسائل منظوم بیان کرتے ہے۔ علمِ نجوم اور فلکیات پر بھی آپ کو خاصی دسترس حاصل ہے۔ ”فالنامہ“ لکھ کر خوابوں کے تعبیر اور نظامِ شمسی کے بارے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جغرافی اور تاریخ پر بھی قلم اٹھا کر ”سوات نامہ“ لکھتے ہے جس میں سوات کی تاریخ اور جغرافیہ بتاتے ہیں۔

غرض خوشحال خان کی کتابیں بیشمار اور فنی آثار انمٹ و لازوال ہیں۔ میجر راورٹی لکھتے ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہیں۔ پشتو ادب میں آپ کی خدمات لازوال ہیں۔ چار صدیاں گزرنے کے باوجود آپ کا کوئی ہمسر پیدا نہیں ہوا ہے۔ جیسے وہ خود لکھتے ہے اور میں اختتام بھی آپ کی اسی شعر سے کرتا ہوں۔ ”خٹک لا پریژدھ پھ درست افغان کشی، عجب کھ ہسی فرہنګیالۍ راشی“ ترجمہ ”خٹک تو کیا پورے افغان میں میری طرح عجیب سخن ور پیدا نہیں ہوسکتا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments