حکمراں عوام کے محافظ بنیں!


کرونا وائرس جنگل کی آگ کی طرح پھیلتاجارہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے وائرس کے خطرات سے بچنے کے لیے عوام میں آگاہی مہموں کے ذریعے اس کے ممکنات خطرات سے محفوظ رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے اور کئی طرح کے انتظامات حکومت کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ فروری کے دوسرے عشرے میں ایران کورونا وئرس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر تھا اور وہاں تہران سمیت کئی شہروں میں حالت تشویشناک تھی، لیکن اس ساری صورت حال کو ہماری حکومت نے ہوا میں اڑا دیا اور لاپرواہی کی طویل چادر اوڑھ کر سوتی رہی۔

اس کے بعد وزیر اعظم صاحب کا یہ کہنا کہ ”اگر کورونا پورے ملک میں پھیل گیا تو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس کا مقابلہ کر سکیں، کسی طرح بھی حوصلہ افزا نہیں کہا جاسکتا۔ حکمران عوام کے رہبر رہنما ہوتے ہیں اورعوام کو مثبت و حوصلہ افزاء بیانات سے ان کو باہمت بناتے ہیں، مگر ہماری قومی قیادت میں عوامی مسائل بارے آگہی دانش کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کا قوم سے خطاب کی چند لائنیں کو بھی سنجیدہ حلقوں میں درست نہیں سمجھا جارہا۔

ایک دوست کہنے لگاکہ اگر کسی کے گھر میں کوئی حادثہ پیش آجائے کسی کا بھاری نقصان ہو جائے تو کیا وہ اپنے قرضے معاف کرواتا رہے گا یا اپنی تمام تر صلاحیتیں، وسائل لگا کر پریشانی کا سامنا کرے گا۔ مگر کورونا ہمارا ایسا دشمن بن کر سامنے کھڑا ہوگیا ہے کہ ہم خود لڑنے کی بجائے دوسروں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ہماری قوم بہت بہادر اور خدا ترس ہے، یہ ہر آفت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بس ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لیے کہ کسی بھی مشکل حالت میں نفاق سے جنگ کرنا ہمیں تباہ کردے گا۔

ہمیں اپنے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنی خدمت عوام کے لیے وقف کرنی ہوگی۔ آج کے اخبارات میں کورونا کی خبروں سے بچتے بچاتے ایک خبر یہ بھی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی لیبارٹری بنائی جائے جس میں کورونا کا ٹیسٹ مفت کیا جائے۔ کیوں کہ ایسے مواقع پر ہی منافع خور سر باہر نکال کر میدان میں آجاتے ہیں اور عوام کی باقی ماندہ کھال بھی ادھیڑ لیتے ہیں۔ اس وبائی صورت حال میں جب ہماری حکومت چین سے تعاون مانگ رہی ہے تو پھر چین سے باہمت ہونا اور خود انحصاری کا سبق بھی سیکھنا ہوگا۔

چین میں کورونا پھیلا تو انہوں نے کورونا مرکز ووہان میں دس دن میں دو اسپتال بنا لیے، ہماری معیشت کا اتنا بھی برا حال نہیں کہ ہم بوقت ضرورت ایمرجنسی میں تین، چار اعلیٰ معیار کی لیبارٹریاں بھی نہ بناسکیں، جہاں غریب طبقے کے مفت ٹیسٹ کیے جائیں۔ وائرس سے لڑنے کے ساتھ عوام کو کئی اور جنگیں بھی لڑنی ہیں جن میں ایک معاشی جنگ ہے۔ کورونا کے پھیلنے کے خطرات سے نبٹنے کے لیے حکومت نے ملازمین کو گھروں میں بٹھا دیا ہے، شادی ہالز، ریسٹورنٹ اور تفریحی مقامات کو سیل کر دیاہے۔

عوام کی جان کی حفاظت کے لیے حکومت کا یہ اقدام درست مگرحکومت پہلے خود اس وائرس کے خو ف سے باہر نکل کر ہر طرح سے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہو اور عوام کی صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ملازمین، دیہاڑی دار مزدوروں کے گھر کا چولہا جلنے کے لیے بھی کام کرے۔ ایک شادی ہال میں برتن دھونے والے، کھانا پکانے والے، برتن لگانے والے، کھانا سرو کرنے والے اور صفائی ستھرائی کرنے والے ملازمینکورونا کے خوف سے زیادہبھوک سے مر جانے کا ڈر ہے۔

ہوٹل میں کام کرنے والے بیروں کو دن میں تین یا پانچ سو ملتے ہیں اور اگر ایک دن بھی ناغہ ہو جائے تو ان کے گھر کھانا نہیں پکتا، اس کے لیے دوسرے شعبہ جات میں کام کرنے والے مزدور طبقہ افراد اپنے روزگار کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا فصلہ بہت اچھا ہے کہ غریب افراد کو ایک ماہ کا راشن مفت دیاجائے گا، جس پر منصفانہ عمل ہونا چاہیے اور غریب طبقے کو فاقوں سے بچاناریاست کا اولین فرض ہے۔

کچھ روز قبل ایک غریب خاتون ہمارے گھر آئیں، وہ کسی جگہ صفائی کا کام کرتی ہیں لیکن چھٹیوں کی وجہ سے ان کی بھی چھٹی ہو گئی تھی۔ چہرے پر پریشانی کی گہری لکیریں اور آنسوؤں بھری آنکھیں لیے وہ مجبور ہو کر پیسے مانگتے ہوئے کہنے لگیں : ”بیٹا چھٹیوں کی وجہ سے گھر میں فاقے ہیں، آٹا خریدنے کے بھی پیسے نہیں، اگر کرفیو لگ گیا تو ہم غریب بھوک سے ہی مر جائیں گے، مجھے بس اتنے پیسے دے دو کہ دس دن کا آٹا خرید سکوں“۔ نا جانے ان جیسی کتنی خواتین و مرد مجبور ہوں گے، المیہ یہ نہیں کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کیا المیہ یہ ہے کہ پھر غریب عوام کے لیے کوئی حل بھی تو نہیں سوچا۔ کورونا وائرس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس موقع پر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس وائرس سے لوگوں کی جانی حفاظت کے ساتھ مالی معاونت کا بھی کوئی مثبت حل سوچے اورکرفیو کی صورت میں عوام کو زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے انہیں ضروریات زندگی کا انتظام کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments