امیر لڑکی غریب لڑکی: ایک اوبر کیپٹن کے دو تجربات


آصف کا تعلق مڈل کلاس خاندان سے ہے اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل حاصل کی اچھی نوکری کا حصول اور اپنے گھرانے کی کفالت کرنا اُس کا خواب تھا انتخابات سے قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بے روزگار نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا خواب دکھایا تو اسے ایسا لگا کہ یہ خواب تو اس کا ہے اسے ایسا لگا کہ اس نے جاگتی آنکھوں سے جو خواب دیکھا تھا جلد اسے تعبیر ملنے والی ہے خوابوں کی تعبیر کے لیے اس نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا تحریک انصاف اقتدار میں آئی دن مہینوں اور مہینے سالوں میں گزرنے لگے مگر اس کے خواب کو تعبیر نہیں ملی۔

جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے آصف کیپٹن بن گیا، فوج کا نہیں بلکہ اوبر ٹیکسی سروس کا، آصف سنجیدہ نوجوان ہے وہ چیزوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے دن بھر کی مشقت کے بعد کبھی کبھار وہ مجھ سے ملنے آتا ہے وہ مسافروں کے رویے کہ بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ گزرے روز اس نے بتایا کہ دو ایسے واقعات ہوئے جو میرے دل پر نقش ہو گئے اور اُن سے میں نے سبق حاصل کیا پہلا واقعہ یہ ہے کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں بلیو ایریا اے کے فضل حق روڈ سے مجھے رائڈ ملی سواری پک کرنے والی مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو دو خواتین اور ایک دس سے بارہ سال کی عمر کی لڑکی تھی۔

دوران سفر ان کی گفتگو سے جو بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سن بلوغت کو چھوتی لڑکی کا تعلق ان کے خاندان سے نہیں بلکہ یہ ان کی گھریلو ملازمہ ہے کیونکہ وہ خواتین اسے ہدایات جاری کر رہی تھی کہ تم نے گھر پہنچ کر یہ کام کرنے ہیں مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے پوچھا کہ یہ لڑکی آپ کے گھر کام کرتی ہے تو آپ ایک مہربانی کریں کہ اسے کسی اچھے سکول میں داخل کروا دیں تاکہ یہ تعلیم جیسی نعمت سے بہرہ مند ہو سکے جواب ملا کہ ہم نے کوشش کی مگر اسے دلچسپی نہیں ہے ہاں اسے ہم گھر پر دینی تعلیم دے رہے ہیں۔

سواری کو ان کی منزل پر پہنچایا تو کرایہ ادا کرنے کے لیے ان کے پاس پورے پیسے نہیں تھے ایک خاتون نے کہا آپ یہاں رکیں ہم اندر جا کر لڑکی کے ہاتھ آپ کے پیسے بھیج دیتے ہیں چند منٹ بعد اُن کی گھریلو ملازمہ جب کرایہ لے کر آئی تو میں نے کہا کہ بیٹا یہ آپ رکھ لو میں نہیں لیتا۔ لڑکی نے ترنت جواب دیا کہ ”ہم کسی کا رزق نہیں کھاتے اللہ کا شکر ہے کہ وہ ہمیں دے رہا ہے“ دینی و دنیاوی تعلیم سے نابلد لڑکی کے اس جواب نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے وہ مجھے زندگی کا ایک سبق دے گئی۔

دوسرا واقعہ پچیس مارچ کا ہے اسلام آباد کے پوش ایریا ایف سکس سے مجھے سواری کی درخواست آئی نقشے کی مدد سے مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو ایک خاتون آئی اور مجھے کہا ایف سیون ایک نجی بنک جانا ہے اور واپس مجھے ڈراپ بھی کرنا ہے دن کے ساڑھے چار بج چکے تھے آسمان سے ابر بھی برس رہا تھا۔

ایف سیون پہنچے خاتون بنک کے اندر گئی اسے بتایا گیا کہ مہلک وباء کی وجہ سے بنک کی ٹائمنگ تبدیل ہو گئی ہے خاتون واپس آئی اور مجھے کہا کہ مجھے ڈراپ کر دیں خاتون کو ڈراپ کیا انھیں کہا آپ کے کرایہ کی مد میں چار سو روپے بنتے ہیں خاتون بولی میرے پاس کرایہ نہیں آپ میرا نمبر لکھ لیں صبح مجھے میسج یا کال کرنا آپ کو کرایہ مل جائے گا۔ دوسرے روز انھیں کال کی اپنا تعارف کروایا اور مدعا بیان کیا جواب ملا کون سے پیسے؟ میں نے تو آپ کے پیسے دینے ہی نہیں خاتون سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا رونما ہونے والا یہ واقعہ مجھے سبق دے گیا۔

بظاہر یہ معمولی واقعات ہیں مگر ان میں غیر معمولی سبق ہے ایک طرف وہ لڑکی جس کے پاس دینی و دنیاوی تعلیم بالکل نہیں تھی وہ ابھی میچور بھی نہیں ہوئی ابھی اس کی گڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی عمر ہے مگر وہ فکری اعتبار سے اوج ثریا پر ہے جسے یہ پتہ ہے کہ ہمارا دین کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں دیتا، یہ سراسر ظلم ہے اور روز قیامت مجھے اس کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

جبکہ دوسری طرف اعلٰی تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون جیسے کئی گھرانے ہیں جو سب کچھ جاننے کے باوجود دوسروں کا حق مار کر اپنے دفینے اور خزانے بڑے اطمینان سے دبا رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی ہوا کسی کو نہیں لگے گی لیکن وہ دیکھ کر ششدر رہ جائیں گے جب زمین لمحوں میں سب کچھ اگل ڈالے گی جو انھوں نے برسوں اور کئی پشتوں سے دوسروں کا حق مار کے جوڑا اور چھپایا تھا، جو لوگ چور دروازوں سے حکومت اور دولت حاصل کرتے اور سازشوں سے اسے محفوظ بناتے تھے زمین ان کی ساری کہانی بیان کر دے گی۔

جتنی سازشیں جتنے جوڑ توڑ جتنے مکروفریب اور جتنی عیاریاں اس ملک میں ہو رہی ہیں یہاں کے وڈیرے ہاری کا خون نوچ رہے ہیں اور اس کی عصمت کو بھی لوٹ رہے ہیں یہاں کا سرمایہ دار مزدوروں کا ہڈ تن جلا دیتے ہیں مگر بدلے میں پیٹ بھر کر روٹی نہیں دے سکتے یہاں کے مقتدر حلقے غرور کی ٹوپی پہنے سائل کو بے عزت بھی کر رہے ہیں مگر یاد رکھیں غرور اللہ کی چادر ہے جو بھی اُس میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال میں گرتا ہے۔

ابو جہل بھی اس گھمنڈ میں تھا کہ غرور کی ٹوپی اس کے سر پر آ نہیں سکتی مگر اللہ نے دو نوعمر بچوں معوذ اور معاذ کو توفیق دی کہ وہ اس کے سر کو گیند بنا کر اس کی ساری نخوت ریت کا ڈھیر بنا دیں یہی کہانی خسرو پرویز اور قیصر روم کی ہے۔ ولید بن مغیرہ کو بڑا مان تھا کہ اس کا تعلق بڑے قبیلے سے ہے اور وہ ان کا سردار ہے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ اس کا خاندان بان بٹتا رہ گیا اور ولید حسرت و یاس میں ہونٹ کاٹتا رہ گیا۔

لیکن اللہ کا یہ کہا کتنا سچ ہے کہ عبرت صرف اہل بصیرت حاصل کرتے ہیں ارباب حکومت تو جب تک سانس حلق تک نہ آ جائے رب موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے۔

ہمارا عیش پرور اور لذت اندوز طبقہ جو آج ہزاروں ایکڑ اراضی کا مالک ہے روز قیامت ایک مرلے کو بھی اپنے خلاف گواہی سے نہیں روک سکے گا۔ کرونا کی وجہ سے خوف ہماری معاشرت کا سرنامہ ہے خوف کا عالم؟ اللہ کی پناہ! مسجدیں، عدالتیں، بازار، چوراہے حتی کہ گھر اور چار دیواری پر خوف آسیب بن کر لپٹا ہوا ہے مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم دھوکہ، فراڈ کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے رجوع کریں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں وہ غفور ہے وہ ہمارا بھرم رکھ لے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments