کورونا وائرس: مورخ کیا لکھے گا ؟


دنیا بھر میں اس وقت کورونا نے چار لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا۔ ان ممالک میں اٹلی اور چین سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ چین اپنی جدید ٹیکنالوجی اور بروقت کوششوں کے باعث کسی حد تک اس وائرس کے خلاف جنگ میں جیت چکا ہے۔ چین کے سب سے زیادہ متاثر شہرووہان سے 8 اپریل کو لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ جبکہ اٹلی میں ہر طرف تباہی ہی نظر آتی ہے۔ ہماری طرح اٹلی کے عوام نے بھی اس وائرس کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ خدا کی اس وبا نے اٹلی کو اس انداز میں لپیٹ میں لیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں وہاں 700 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ اٹلی حکومت کے پاس لوگوں کی زندگیاں بچانے سے زیادہ میتوں کو ٹھکنانے لگانا بڑے چیلنج ہے۔

ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی۔ سندھ 413، پنجاب 310، بلوچستان 117، خیبر پختونخوا 80، اسلام آباد 20، آزاد کشمیر 1، گلگت بلتستان میں متاثرین 81 ہوگئے۔ پنجاب میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 310 ہو گئی جن میں 176 زائرین بھی شامل ہیں۔ گجرات میں 21، گوجرانوالہ میں 8، جہلم میں 19، راولپنڈی 4، ملتان میں 4، فیصل آباد میں 2، منڈی بہاوالدین، نارووال، رحیم یار خان اور سرگودھا میں ایک ایک مریض میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ملک بھر میں کئی افراد کی اسکرینگ چل رہی ہے۔ اللہ نے رحم کا معاملہ فرمایا تو مریضوں کی تعداد میں اضافہ کم ہوگا لیکن حالات کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔

کورونا کے پھیلاؤ کے پیش نظر تمام تعلیمی ادارے، دفاتر، دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ آبادی میں اضافہ ہو نہ ہو سوشل میڈیا پر دانشوروں، صحافیوں اور مورخوں کی تاریخ میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر نومود مورخ کورونا وائرس سے بچ گیا تو وہ ان دنوں ملکی حالات کا جائزہ ضرور لے گا۔ مورخ لکھے گا کہ ایک قوم کا نچلا اور درمیانہ طبقہ اس وبا کے بعد ایک پیج پر نظر آیا۔ یہ طبقے جس کے پاس کوئی بینک بیلنس نہیں ہے اپنے ہی جیسوں سے پیسے اکٹھے کر کے غریبوں میں کھانا اور راشن تقسیم کرتا رہا۔

کورونا وائرس سے محفوظ رہنے والا مورخ لکھے گا وزیراعظم کہتے رہے اصل مسئلہ لوگوں کو بھوک سے بچانا ہے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کہتے رہے اصل مسئلہ لوگوں کو کورونا سے بچانا ہے۔ مورخ لکھے گا کہ دونوں کے اپنے اپنے نظریات تھے لیکن اس کے باوجود لوگ بھوک سے بھی مرتے رہے اور کورونا سے بھی۔ مورخ کو اگر ماسک بلیک میں مل گیا تو وہ لکھے گا وزیراعلیٰ اپنی بہترین کارکردگی دکھاتے رہے کورونا کے خلاف کام کرتے رہے لیکن سندھ بھر میں وائرس کی طرح پھیلے انکے بلدیاتی نمائندے کہیں نظر نہ آئے۔ مورخ لکھے گا یونین کونسل، ٹاؤن، ضلعی انتظامیہ، ممبر صوبائی اسمبلی تمام کو فنڈ ملتے رہے اور ترقی یاتی کام بھی رکے تھے لیکن لوگوں کے گھروں پر پھر بھی راشن نہ پہنچا۔

مورخ سڑک کنارے سے کپڑے والا ماسک خرید کر پہن سکا تو ضرور لکھے گا کہ کچھ لوگ کام کررہے تھے اور کچھ گھر بیٹھے ان پر تنقید کررہے تھے کہ سامان کم ہے یہ بھی کیوں دیا، اپنی تشہیر کررہے ہو۔ مورخ لکھا گا کہ کسی امیر نے اگر کسی غریب کو صابن بھی دیا تو صابن کی قیمت سے زیادہ اس کی تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر وائرل کیں۔ اللہ کرے کہ میرا مورخ محفوظ رہے کیوں کہ اس نے لکھنا ہے کہ یہ قوم 10 روپے والا ماسک 100 روپے میں بیچتی رہی۔ مورخ لکھے گا کہ ہاتھ صاف رکھنے کا جراثیم کش محلول اس قوم کے منافع خوروں نے مارکیٹ سے غائب کیا پھر 30 ایم ایل والا سینی ٹائزر 200 روپے میں بیچتے رہے۔

میری رب سے دعا ہے کہ میرا مورخ محفوظ رہے تاکہ وہ لکھے اس قوم میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے ملک کے دفاع کے نجائے ایران و سعودی عرب کا دفاع کرتے رہے۔ مورخ لکھے گا کہ ایسے لوگ بھی اس دور میں سامنے آئے جو خانہ کعبہ سے دوری کو رب کی ناراضگی کی بجائے اہل سعود کی سازش کہتے رہے۔ لکھنا تو یہ بھی ہوگا کہ کچھ لوگ اپنے اہل وطن کے لئے دعا کرنے کے بجائے کہتے رہے انہیں واپس ایران بھیجو حکومت کا فیصلہ غلط ہے۔

مجھے معلوم ہے مورخ یہ سب لکھ لکھ کر تھک جائے گا لیکن اسے بھی بہت کچھ لکھنا ہے۔ اسے لکھنا ہے کہ میاں شہباز شریف ملک واپس آئے تو لوگوں نے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا دیا کہ میٹرو کے بجائے اسپتال بناتے تو ایسا نہ ہوتا۔ مورخ لکھے گا اپوزیشن کو اس وقت بھی وزیراعظم کے فیصلے غلط لگ رہے تھے۔ اس نازک صورتحال میں بھی کہا جارہا تھا پیٹرول 15 روپے کیوں کم کیا 35 روپے کم ہونا چاہیے تھا۔ اگر مورخ کو کچھ ہو بھی جاتا ہے تو ہندوستانی فلموں کی طرح اسے جھنجھوڑ کر جگایا جائے گا تاکہ وہ یہ بھی لکھے نا کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے دوران چلے جانے پر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔

مورخ شاید یہ بھی لکھ ہی دے کہ جن ڈاکٹروں کوقصائی کہا جاتا تھا وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس وبا کا علاج کرتے رہے کئی نے اپنی جان کھو دی لیکن اس وبا کہ خاتمے تک پیچھے نہ ہٹے۔ مورخ لکھے گا جن صحافیوں کو قوم لفافہ لفافہ کہتی تھی وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر فرائض انجام دیتے رہے سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ مورخ لکھے گا جس فوج کو کہا جاتا تھا تمہارا کام بارڈر پر رہنا ہے اسے بلایا گیا اسپتال ان کے حوالے کیے گئے ان کی مدد لی گئی لیکن انہوں نے برا نہ منایا وہ آئے انہوں نے سب سنبھالا۔ مورخ لکھے گا جس پولیس کو ہم روز برا کہتے تھے وہ ہماری منتیں کر کر کے ہمیں گھروں میں بٹھاتی رہی۔

خدا مورخ کو محفوظ رکھے کیوں کہ کہیں اموات میں اضافہ ہوگیا تو کفن مہنگے ہوجائیں گے۔ پھر مورخ کو اٹھایا تو چھیپا کی ایمبولنس میں جائے گا۔ مورخ کو کفن و غسل تو ایدھی کے سرد خانے میں دیا جائے گا مورخ کے اہل خانہ کو راشن تو سیلانی دے گا۔ لیکن مورخ کو اللہ کورونا سے محفوظ رکھے تاکہ وہ لکھے کہ میری قوم ایک ہوگئی تھی، میری قوم نے اختلاف بھلا دیے تھے، میری قوم نے رب سے معافی مانگ لی تھی، میرا جسم میری مرضی والے بھی اللہ کی مرضی سمجھ گئے تھے اور مورخ لکھے گا میری قوم اس وبا سے نکل گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments