سائنسی جدت اور بلوچستان


پاکستان محل وقوع کے اعتبار سے جنوبی اشیاء کا خوش قسمت ملک تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں سمندر، دریا، خوبصورت و ہرے بھرے پہاڑ، سرسبز وادیاں، قدرتی معدنیات کے ذخائر کے ساتھ ساتھ دلفریب ریگستان اس کے محل وقوع کی خوبصورتی و خوش قسمتی کا ثبوت دیتے ہیں۔

پاکستان کی دیگر خصوصیات میں تقریباً ہر ایک صوبے کا اشتراک ہے لیکن اگر بات صرف ساحل و قدرتی وسائل اور قدرتی معدنیات کے ذخائر کی جائے تو اس صفت میں پاکستان ماسوائے بلوچستان کے نامکمل ہے۔

بلوچستان پاکستان کی وہ واحد امیر ترین، غریب باسیوں کی سرزمین ہے جہاں سے پاکستان کو اربوں روپے کا سالانہ پیسہ ملتا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان کی معیشیت میں کیا کردار ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے مگر بلوچستان کے باسیوں کے بارے میں زمینی حقائق کی خبرگیری سے شاید آپ ناواقف ہوں گے۔

گیس، بجلی، پانی، صحت کی بہترین سہولیات، معیاری تعلیمی نظام، پرسکون و محافظ سڑکیں جیسی کئی بنیادی سہولیات کی محرومی اس امیر ترین صوبے کی عوام کا روز اول سے تقدیر کا حصہ رہی ہیں۔

مندرجہ بالا امور پر کئی اقدامات بروئے کار لانا درکار ہے اس امر سے بھی انکار نہیں مگر میں بلوچستان میں ایک ایسی محرومی کا ذکر کرنے جارہا ہوں جس کا پھیلاؤ سائنسی جدت نے پوری دنیا کے طول و ارض میں آسان کر دیا ہے۔ جوکہ موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ ہیں۔

موجودہ کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر حکومت پاکستان نے احتیاطی تدابیر کو ملحوظ نظر رکھ کر انسانی روزمرہ زندگی کو لاک ڈاؤن کی صورت میں قید کردیا اور اسی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی بندش کا بھی حکم صادر کیا جوکہ انسانی جانوں کی حفاظت و ملک میں وباء کے پھیلاؤ کی شرح کو کم کرنے کے لئے ایک بہترین اقدام ہے۔ اس کے برعکس درس و تدرس کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے پاکستان کی بیشتر جامعات آن لائن کلاسز کا آغاز کرچکی ہیں۔

امیرترین صوبے کی غریب عوام جوکہ ہمیشہ سے بنیادی سہولیات کی غیر موجودگی کے سبب احساس محرومی کا شکار رہی ہے۔ ہاسٹلز کی بندش کے بعد گھروں کی جانب واپسی پر آن لائن کلاسز کی خبر نے بلوچستان کے طلباء و طالبات کو مزید احساس محرومی کی طرف دھکیل دیا۔

انٹرنیٹ دور حاضرہ کی عین ضرورت ہے خصوصاً اس وباء سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے پھیلاؤ کا موثر ذریعہ سوشل میڈیا ثابت رہا ہے اور اس وائرس یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے سفید پوش طبقے کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کی آواز کا ذریعہ بھی سوشل میڈیا ہے۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کا عمل بھی اب بغیر انٹرنیٹ کے ناممکن ہوچکا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس بلوچستان کے آج بھی بیشر علاقے اس جدت کی روشنی سے محروم ہیں۔ جن میں مکران ڈویژن سرفہرست ہے پنجگور، آواران، گوادر کے بیشتر مقامات، تربت شامل ہیں جبکہ بلوچستان کے دیگر کئی ایسے علاقے ہیں جن میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ نا ہونے کے برابر ہے۔

اطلاعات کے مطابق بلوچستان کا کوئی ایسا دیہی ضلع نہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولیات مکمل میسر ہوں۔ تحریر کو طوالت سے بچاتے ہوئے اس بات پر اکتفا کروں گا کہ ماسوائے بلوچستان کے چند گنے چنے شہروں کے ہر ایک علاقہ جزوی یا کلی طور پر اس جدید سہولت سے محروم ہے۔

بحثیت طالبعلم حکام بالا خصوصاً بلوچستان حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس ایک اہم مسئلہ پر بھی نظر ثانی کر ے۔ بلوچستان میں مکمل طور پر انٹرنیٹ کی موجودگی ناصرف تعلیمی صورت حال کو رواں رکھے گی بلکہ عوام الناس کو کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر و دیگر اہم و ضروری معلومات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو گھروں تک محصور کرنے کا اہم ذریعہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ لہذا دور حاضر کی عین ضرورت سمجھ کر بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments