کرونا اور ہماری ذمہ داریاں


کورونا وائرس کا پہلا کیس سال گزشتہ کے آخر میں چائنا کے شہر ووہان سے نمودار ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وبا پھیلتی گئی اور اس نے نہ صرف چائنا بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبا سے پوری دنیا کا نظام مفلوج ہو گیا اور لو گوں کو اس وبا نے گھروں تک محصور کر دیا۔ دنیا اس سے پہلے بھی ایسی وباوں کا سامنا کرتی رہی ہے۔ 1918 میں جنگ عظیم اول کے دوران سپائنش فلو کے نام سے ایک وبا پھوٹی تھی جس سے پانچ کروڑ اموات ہوئیں بعض یہ تعداد دس کروڑ بھی بتاتے ہیں۔

لیکن دنیا نے صحت پر خاطر خواہ کا م نہیں کیا۔ دنیا نے جنگ عظیم دوم بھی دیکھی جس نے انسانی جانیں ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا نے جنگ عظیم سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور اپنی عسکری قوت پر کام کرتی رہی۔ آج دنیا بے بس ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان اور ڈاکٹرز اس کا علاج متعارف کرنے میں ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ حکیموں اور بابوں نے نے اپنی دکانیں اور آستانے بند کر دیے ہیں۔ اس کورونا نے دنیا کو یہ درس دیا ہے کہ مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

خیر یہ طویل بحث ہے۔ بات کرتے ہیں پاکستان کے حولے سے جو اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔ ابتدا میں کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور حکومت کی طرف سے بھی کوئی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا کہ جس سے عوام کو اس وبا کے متعلق آگاہ کیا جاتا۔ پاکستانی عوام بھی عام بیماری سمجھ کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ بتدریج حالات مخدوش ہوتے گئے۔ بالآخر حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ حکومت کو ملک کو لاک ڈاون کی طرف لے جانا پڑا۔

حالات گھمبیر ہونے کے باوجود پاکستان میں سیاسی قیادت متفرق نظر آئی۔ وفاق ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ ملک مکمل لاک ڈاون کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کورونا وائرس نے سندھ کو زیادہ متاثر کیا لیکن سندھ حکومت بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے اور تمام سیاسی اختلافات پس پردہ رکھے اور اس وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کو مل جل کر کام کرنے کی ترغیب دیتی رہی ہے۔ وزیراعلی سندھ کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔

ابتدا میں حکومتِ سندھ نے لاک ڈاون کا اعلان کیا کیونکہ اس وبا سے نمٹنے کا واحد حل یہی ہے۔ یہ بھی بات اظہر من الشمس ہے کہ لاک ڈاون سے غریب طبقہ متاثر ہو گا۔ اب اس چیز کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری میں آتاہے۔ سیاسی قیادت کے فقدان اور مذہبی معاملات نے عوام کو مزید کنفیوژن میں ڈال دیا۔ ایک طرف وزیراعظم کہتے رہے کہ ملک لاک ڈاون کا متحمل نہیں ہوسکتا اور دوسری طرف ملک کے بڑے صوبوں نے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا۔

بات کرتے ہیں مذہبی معاملات کی وہاں بھی علما کی متفرق آرا سامنے آئیں بعض علما کہتے رہے جمعہ کی نماز ہونی چاہیے لیکن بعض اختلاف کرتے رہے کہ ایسی وبا کی صورت میں یہ ممکن نہیں۔ حالانکہ دین میں بھی اس کی گنجائش ہے کہ وبا کہ صورت میں احتیاط لازمی ہے۔ سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عوام اس سے بچنے کے لیے کیا کردار ادا کر رہی ہے جس طرح میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ عوام نے بھی ابتدا میں اسے سنجیدہ نہیں لیا۔

اور ہم ہمیشہ یہی کہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں یہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ معاشرہ ہی ریاست تشکیل دیتا ہے نہ کہ ریاست معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔ اور حکومت اور ریاست میں فرق ہے۔ قرار داد پاکستان میں بھی جس چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ریاست تھی نہ کہ حکومت۔ اس وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں اور حکومت کو بھی چاہیے عوام کی فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش کر ے۔ سیاسی جماعتیں سیاسی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آئیں اور مل کر اس وبا کا مقابلہ کریں۔ اور یہ حقیقت بھی قابل تسلیم ہے کہ جس طرح مراد علی شاہ بطور وزیر اعلی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اس نے بھٹو کی روح کو تسکین پہنچائی ہے۔ اور تمام وزارئے اعلیٰ بشمول وزیر اعظم کو اس ڈگر پر چلنے کی ضرورت ہے۔

احمد علی کورار
Latest posts by احمد علی کورار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments