احتیاط کریں مایوسی مت پھیلائیں


ایک عام سی کہانی ہے کہ ایک سانپ اپنے زہر کی تعریف کررہاتھا کہ میراڈسا پانی نہیں مانگتا۔ پاس بیٹھا مینڈک اس کا مذاق اڑا رہاتھا کہ لوگ تیرے زہر سے نہیں بلکہ تیرے خوف سے مرتے ہیں۔ دونوں کا مقابلہ کرنے کے لئے طے پایا کہ کسی راہگیر کو سانپ چھپ کرکاٹے گا اور مینڈک سامنے آئے گا۔ دوسرے راہگیر کو مینڈک کاٹے گا اور سانپ سامنے آئے گا۔

اتنے میں ایک راہگیر گزرا اسے سانپ نے چھپ کر کاٹا جبکہ مینڈک پھدک کر اس راہگیر کے سامنے آگیا۔ راہگیر مینڈک کو دیکھ کر تسلی سے آگے چل پڑا کہ خیر ہے مینڈک ہی تھا کیافرق پڑتا ہے۔ دونوں اسے دور تک جاتا دیکھتے رہے وہ صحیح سلامت چلا گیا۔

دوسرے راہگیر کو مینڈک نے چھپ کے کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کے سامنے آگیا

مسافر دہشت سے فوری مر گیا۔

ا س وقت کرونا وائرس وبا ایک حقیقت کا روپ دھار چکی۔ ہزاروں اس کا شکار بن چکے۔ یہ پھیلتی بھی جارہی ہے۔ حکومتیں اس کے خلاف اپنادفاع مضبوط سے مضبوط کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔ سائنس دانوں کی، ماہرین کی ٹیمیں ریسرچ میں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ انسانیت اس تکلیف دہ بحران سے جلد نکل آئے گی۔ اس امید کے ساتھ اس وقت جو کام کرنے کے ہیں ان کی طرف پوری توجہ دینا ہے۔

ساری دنیا کے ڈاکٹرز، تما ماہرین یہ کہ رہے ہیں کہ اس وبا کا فوری حل ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے آگے منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ ہمیں بس اس کا تسلسل توڑنا ہے۔ بس رک جایئے۔ اس کا تسلسل توڑ دیجئے۔ اسے آگے جانے سے روک دیں۔ اسے دوسروں تک پہنچانے میں آپ مدد گار نہ بنیں۔ صرف اپنی اخلاقی، معاشرتی، انسانی ہمدردی کی ذمہ داری پوری کیجئے۔ یہ رک جائے گا۔ یہ پھیلنا بند ہو جائے گا۔ یہ سکڑنا شروع ہو جائے گا۔ جن کو پہنچ چکا بس وہاں تک محدود ہو جا ئے گا۔

مان لیجیے کہ ہمارے دشمن نے ہماری اخلاقی قدروں میل ملاپ ایک دوسرے سے ہمدردی ایک دوسرے کے ہا ں آنے جانے، گلے لگانے، سلام لینے، ہاتھ ملانے، بچوں کو پیا رکرنے بڑوں کی دعائیں لینے، ادب اور پیار سے بوسہ لینے دینے جیسی اچھی معاشرتی عادات پر حملہ کیاہے۔

ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ عقل اور شعور عطا کیاہے۔ اگر کل تک ایک دوسرے سے میل ملاقات، ہاتھ ملانا، گلے لگنا، بوسہ لینا اچھی اقدار تھیں اور ہمارے پیار اظہار محبت کو ظاہر کرتی تھیں تو آج اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ وقت کے لئے اس پیار محبت اور ہمدردی کی تعریف بدل جائے گی۔ اب ہماری ہمدردی اور باہمی الفت یہ ہے کہ ہم اس دشمن کواپنے کسی پیارے کے گھر کا رستہ نہ دکھائیں۔

اگرخدا نخواستہ کسی طرح یہ ہم تک پہنچ گیا ہے تو ہم ا س کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں۔ اس کی آنکھوں کی آنکھیں ڈال کر کہیں تم آگے نہیں جاسکتے۔ میں تمہیں اپنے کسی پیارے تک پہنچنے نہیں دوں گا۔ کسی بھی انسان تک جانے نہ دوں گا۔ ہم ایک ہیں۔ ہم متحد ہیں۔ ہم تمھیں گھیر لیں گے۔ تم عاجز آجا ؤ گے۔ ناکام ہو جاؤ گے۔

اس جنگ میں ہماری قربانیاں ہوں گی۔ ہمیں بطور انسان کچھ نقصان ہوگا۔ ہمارے بعض پیارے ہم سے جدا ہو جائیں گے۔ لیکن انسان کو قائم رکھنے کی خاطر، بقائے حیات کی خاطر، ہم یہ مشکل مرحلہ بھی طے کر لیں۔ ہم اس دشمن کو شکست دیں گے جو ہماری اقدار ہر حملہ آور ہے۔

خوف کو ختم کر دیں۔ خوف قوت مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے اور انسان ہمت ہار بیٹھتا ہے۔ مایوسی پھیلانا گناہ ہے۔ افواہیں پھیلانا جرم ہے۔ صرف حقیقت حال کا ادراک کیجئے۔

کرونا کے ایک لاکھ پندرہ ہزار مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ ہمارے جیسے ان انسانوں نے اس بیماری کو شکست دے دی ہے۔ ہم بھی بحیثیت مجموعی یہ جنگ جیت جائیں گے۔ اپنے آپ کو ان لوگوں میں شامل کر لیجیے جو مخلوق خدا کی ہمدردی میں اس وائرس کے آگے دیوار بن گئے ہیں اور بن جائیں گے۔ جو اپنی معاشرتی اوراخلاقی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ اور اگر خدا نخواستہ یہ دشمن آپ تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو گیا تو آپ دعا، کوشش، محنت، اختیاط اور قوت ارادی سے اسے شکست دے کر ان ہزاروں میں ہوں گے جویہ معرکہ جیت چکے ہیں۔

ہم جس قدر خوف زدہ ہوں گے اس قدر کمزور پڑیں گے۔ اور ضرورت پڑنے پر دشمن جان وبا کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکے ہوں گے۔ اس لئے خوف زدہ ہو نے کے بجائے ہمت سے اختیاط کرتے ہوئے ہوئے زندہ رہنے کی امنگ خود میں پیدا کریں۔ زندہ دلی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے جینے کی کوشش کریں۔ ورنہ :

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments