کشمیر ایک مسلسل انسانی المیہ
کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم کشمیریوں کو کس ظالمانہ طریقے سے تقسیم کر دیا گیا ہے، ہم اپنے پیاروں کے ساتھ خوشی تو کیا، غم میں بھی شریک نہیں ہو سکتے۔ یوں تو مسئلہ کشمیر کا ہر زاویہ، ہر پہلو ہی ہم کشمیریوں کے لئے دردناک اور دل شکن و دل دوز ہے لیکن یہ خالصتاً انسانی پہلو تو ہمارے لئے ایک ایسے زخم کی حیثیت رکھتا ہے جس میں سے مسلسل خون بہہ رہا ہو اور وہ زخم مسلسل ازیت دے رہا ہو، ہم دنیا میں مسئلہ کشمیر کو سیاسی، مذہبی، جغرافیائی اور ایک عسکری مسئلے کے طور پر تو پیش کرتے ہیں، لیکن اس مسئلہ کے سب سے زیادہ درد ناک پہلو یعنی انسانی پہلو کے حوالے سے آواز بلند نہیں کرتے، حالانکہ یہ انسانی مسلسل جاری المیہ، دل میں چبھے کسی زنگ آلود کیل کی طرح، ہمارے لئے ایک ازیت مسلسل کا باعث ہے، چند روز قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں میرے آبائی گاؤں ”صفا پورہ“ میں میرے تایا زاد بھائی کی وفات ہوئی اور ہم اس غم کے موقع پر بھی اپنے وطن جانے اور اپنے پیاروں سے ملنے سے محروم و مجبور رہے۔
یہ تو خیر ایک ذاتی نوعیت کا صدمہ ہے، لیکن یہ اسی مسلسل جاری بہت بڑے انسانی المیہ کا ہی ایک چھوٹا سا حصہ ہے، ۔ یہ المیہ اپنی شدت سے یا تو ہمارے دلوں کو چاک کر کے ہمیں بالآخر ہلاک کر دے گا یا ہم بھی اسی ذہنی کیفیت کو پہنچ جائیں گے جہاں سعادت حسن منٹو کے افسانے کا کردار ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ پہنچ گیا تھا اور اسی طرح ہم بھی کشمیر کو جبری اور غیر فطری طور پر تقسیم کرنے والی خونی لکیر پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان قائم نو مینز لینڈ میں ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کی طرح جا کر کھڑے ہو جائیں گے اور اسی کی طرح وہیں اپنی جان دے دیں گے۔
۔ پورے جنوب مشرقی ایشیاء میں رہنے والی تمام اقوام میں کشمیری فطری طور پر سب سے پرامن طبیعت کے لوگ ہیں، یہاں کی سرزمین تک یہاں کے باشندوں کی طرح خوبصورت، مہربان اور نرم خو ہے لیکن اس خوبصورت، پرامن ترین افراد کی سرزمین کو جبری طور پر تقسیم کرتے ہوے برصغیر کے جنگجو اور ظالم ترین عسکریوں کا ایسا آتشیں میدانِ حرب بنا ڈالا گیا ہے جہاں دنیا کا مہلک ترین، ہلاکت خیز اسلحہ نصب کرتے ہوے، اس سرزمین کے پھولوں سے بھرے مرغزاروں میں ہلاکت خیز بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں اور ان پھولوں کے نیچے مخملیں گھاس میں موت پوشیدہ کر دی گئی ہے، شہزادیوں جیسی خوبصورتی کی حامل چوٹیوں پر دور مار توپیں نصب کر دی گئی ہیں اس سرزمین پر بہنے والے ندی نالوں اور دریاوں کو قید کر دیا گیا ہے اور سرزمین کشمیر کے پانی اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی تک کو کسی مالِ غنیمت کی طرح ریاست کشمیر سے باہر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اس ماں جیسی مہربان سرزمین اور اس کے وسائل پر اگر کسی کا حق نہیں تسلیم کیا جاتا تو وہ اس سرزمین کے مالک بدنصیب کشمیری ہیں۔ یہ تمام ظلم و ستم، اورآلام کشمیریوں کے دلوں سے نہ تو اپنے وطن کی محبت کم کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کے دل میں روشن تحریک حریت کی شمع کی لٙو کو بُجھا سکتے ہیں۔ جس کو وہ اپنے خون سے مسلسل روشن رکھے ہوے ہیں
- غلطی یا سازش، حل طلب معمہ - 07/12/2024
- وادی کشمیر کے اولین باشندے اور ان کا مذہب - 08/11/2024
- کشمیر کی جنگ آزادی کے چند حقائق - 26/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).