گلگت کے عوام کا عدم تعاون: ریاست اور قوم کا بحران


حکومت کی اصل کامیابی اس کے شہریوں کا اعتماد ہوتا ہے جس کے فقدان کی صورت میں ریاست کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا ثبوت اس وقت پورے پاکستان میں عموما اور گلگت بلتستان میں خصوصا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جب سے کرونا وائرئس نامی عالمی وبا کی پاکستان میں آمد ہوئی ہے اس پر قابو پانے کے لئے حکومت اپنی تئیں کوشش میں اس کے مزید پھلاؤ کو روکنے لئے لوگوں کو اپنے سماجی میل جول کو کم کرنے کی اپیل کر رہی ہے مگر عوام کی طرف سے تعاؤں کی خاصی کمی رپورٹ کی جا رہی ہے۔

اس کی مثال گلگت بلتستان کے علاقے ضلع نگر میں مبینہ طور پر زائرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے طویل ناکام مذاکرات ہیں۔ سینئر کالم نگار فہیم اختر کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے ایران سے واپس پہنچنے والی ایک زائرہ کو کرونا وائرئس کی مشتبہ مریضہ قرار دے لوگوں کو ان سے ملنے سے منع کیا مگر لوگوں نے انتظامیہ کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ اب ضلع نگر کرونا وائرئس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے گلگت بلتستان کا سب زیادہ مریضوں والا ضلع بن گیا ہے جس کی وجہ مقامی لوگوں کے اس انکار کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔

انکار صرف نگر تک محدود نہیں ہے صوبائی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤں کے فیصلے کے باوجود لوگ اس فیصلے پر سو فیصد عمل نہیں ہو رہا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو ضلع انتظامیہ موقع پر سزا دینے کے طور پر ان کے مرغا بنوا کر اس کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈکی جارہی ہیں۔ اس سے ان کی منشا شاید یہ ہو اس طرح وہ ان لوگوں کو سزا دینے سے دیگر افراد ڈر کے مارے حکومتی فیصلے پر عمل کریں گے۔ مگر حکومتی زعما میں سے شاید کسی نے ابھی تک یہ نہیں سوچا ہوگا کہ عوام کیوں حکومت کے فیصلوں کو ہوا میں اڑاتے ہیں۔

اس کو سمجھنے کے لئے گزشتہ روز سوشل میڈیا اور آخبارات میں شائع ہونے والی ان تصویروں پر غور کریں اس میں قانون پر عمل درآمد کے لحاظ سے طبقاتی تفاوت کے علاوہ حکومتی غیر سنجیدگی بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک تصویر میں لڑکوں کو مرغا بنوایا ہوا ہے تو دوسری تصویر میں وزیر اعلیٰ سمیت حکومتی زعما، بعض فوجی افسران اور مولوی حضرات کی ہے جس میں ایک دوسے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی جب میں کالم مکمل کر چکا تو ٹویٹر کے ذریعے خبر ملی کہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کہ ڈپٹی کمشنر کی لاک ڈاون اور دفعہ ایک سو 144 کے دوران پر تکلیف عشائیہ کی میزبانی کی ہے۔

یہ ہمارا اجتماعی متضاد رویہ ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومتی احکامات پر عمل در آمد کے لئے تیار نہیں ہے۔ وفاق میں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد گلگت بلتستان ہاؤس اسلام آباد میں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو وزیر اعلیٰ حاحظ حفیظ الرحمن صاحب بریفنگ دے رہے تھے جب ہم وہاں پہنچے تو اپنا ریکاڈر رکھنا چاہا تو یہ کہہ کر منع کر دیا گیا ہے کہ یہ بریفنگ آف دی ریکارڈ ہے۔

ہم نے تو صحافتی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے واقعے کی روداد کومیڈیا کی زینت بنانے سے گریز کیا مگر انہوں نے خود پہلے بریفنگ کی تصویر آخبارات کو جاری کر دی جس کے دو روز بعد اس ملاقات کے حوالے سے پریس ریلیز جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ لوگوں نے وزیر اعلیٰ کے اقدامات کی بڑی تعریف اورحکومت پر اعتماد کا اظہارکیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ اب جب کرونا وائرئس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھا دیا ہے تو وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس مرض کی روک تھام اور لوگوں کے علاج کے لئے مبینہ طور پر 13 کروڑ روپے خرچ کرنے کا دعویٰ بھی سامنے آیا تو لوگوں یہ پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ ان اتنی بڑی رقوم میں کیا چیز خریدی گئی ہے؟

صوبائی حکومت کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا کہ ابھی ڈاکٹر اسامہ کی موت واقع ہونے کے حوالے سے متضاد خبریں چل رہی تھیں۔ تاہم تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ڈاکٹر اسامہ حفاظتی کٹ کے بغیر زائریں کے معائنے پر مامور تھے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو یہ خدشات ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا خزانہ بھرنے کے لئے یہ بیان جاری کیا ہے تاہم ابھی تک ان خدشات کے درست ثابت ہونے کی اطلاع کہیں سے موصول تو نہیں ہوئی مگر عوام کی طرف پوچھے جانے والے یہ سوالات حکومت پر عوام کا عدم اعتماد کا مظہر ہے جس سے مزید مسائل کو جنم لے گا۔

کرونا وائس کا مسئلہ گھمیر اختیار کرنے سے پہلے ایک طبقے کے طرف سے یہ کہا گیاکہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے کرونا کے مسئلے کو ہوا دے رہی ہے۔ لوگوں کا ایسا کہنا اس وجہ سے بھی درست لگ رہا تھا کہ ایک نجی بس روندو کے مقام پر المناک حادثے کا شکار ہونے سے 30 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور اس بس کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ اس بس کا ڈائیور پہلی بار سکردو کی روڈ پر سفر کر رہا تھا۔ گلگت بلتستان کے روڈ پر ایک سال کے اندار دوسرا بڑا حادثہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس دلیل کو کافی حد تک درست تصور کر رہے تھے کیونکہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹوں پر پاکستان کی معلوم تاریخ کے تناظر میں کوئی بھی اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

حمود الرحمن کمیشن سے لے کر ایبٹ آباد کمیشن تک پھر وہاں سے سانحہ لولوسر حادثے کی تحقیقاتی رپورٹوں کو عوام کی نظروں سے اجھل رکھنا حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جو شاید ترقی یافتہ ممالک بھی انجام دینے سے قاصر ہو۔ اس حوالے سے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 A بھی کسی حکومت کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ سابقہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کے دور بھی سانحہ ساہوال جیسا درد ناک سانحہ پیش آیا مگر ابھی تک اس کے ذمہ داراں کی تعین نہیں ہو سکا۔

اس طرح عوام کو درپیش مسائل سے مسلسل حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے زائرین نے انہیں تفتان میں قرنطینہ میں رکھنے کے فیصلے کو سازش سے تعبیر کرتے ہوئے مکمل تعاؤں نہیں کیا۔ اور حکومت نے جو قرنطینہ سنٹر قائم کیے تھے اس کی اندرونی کہانی بھی ایک دردناک داستان لئے ہوئے ہے۔ یاد رہے یہ عدم تعاؤن صرف زائریں تک محدود نہیں بلکہ تبلیغی جماعت والوں نے بھی حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا۔ اسلام آباد کے علاقے بہارکہو سے رپورٹ ہونے والے افراد مبینہ طور پر تبلیغی اجتماع سے لوٹے تھے۔

اگر عوام کو حکومت پر اعتماد ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے۔ اعتماد کے اس فقدان کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ لہذا حکومتوں کی پہلی ترجیح عوام میں اپنی اعتماد کی بحالی ہونی چاہیے۔ اعتماد کیسے بحال کی جائے اس کا سادہ جواب ہمارئے نزدیک تو یہ ہے کہ عوام سے سچ بولا جائے۔ اور ادارے حکومت کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کے بجائے اصل صورتحال سے آگاہ کرئے جب تک ہم انکاری صورتحال سے نہیں نکلیں گے اس وقت تک مسئلے کے حل جانب سوچا نہیں جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments