جب ماں غضبناک ہوتی ہے


یاد کرو اس دور کو جسے تم ازمنہ تاریک کہتے ہو اور یاد کرو ان مظالم کو جو کلیسا نے خدا کی حاکمیت کے نام پر روا رکھے۔ یاد کرو ان مذہبی عدالتوں کو جو اپنے شکنجے میں آنے والوں کو بھیانک موت بانٹا کرتی تھی۔ اور پھر یاد کرو بیسویں صدی کے وہ سال جب تم نے طاقت کے نشے میں اندھے ہوکر یکے بعد دیگرے دو عظیم جنگیں لڑیں اور شہروں کے شہر ویران کردیے۔ یاد کرو ان کنسٹریشن کیمپوں کو جو تم نے آباد کیے اور یاد کرو ان بھیانک مظالم کو جو تم نے برسوں تک شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں روا رکھے۔

اگر یاد کرنے پر آئے ہو تو اگست 1945 کے وہ دن بھی یاد کرو جب تم نے دو ہنستے بستے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی تباہی مسلط کردی تھی جس نے لاکھوں کو موت میں دھکیل دیا اور اور لاکھوں مزید لوگوں کو کئی نسلوں تک عبرت کی تصویر بنائے رکھا تھا۔ اور پھر یاد کرو فلسطین کو اور صابرہ اور شتیلہ کی بھیانک یادوں کو۔ یاد کرو ان ہزاروں عراقی بچوں کو جن پر تم نے نو فلائی زون مسلط کیا اور انہیں خوراک اور علاج سے محروم کردیا۔ یاد کرو بے مثال تہذیب کی وارث ارض شام کو جس کی تم نے مل جل کر اینٹ سے اینٹ بجادی۔ یاد کرو لاطینی امریکہ کو، روانڈا کو سوڈان کو، اریٹیریا کو، ایتھوپیا اور صومالیہ کو جہاں تم نے جنگ اور بھوک نافذ کی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنگ کا ایندھن بنادیا۔ اور پھر یاد کرو کشمیر کو، اس جنت ارضی کوجہاں تم نے جہنم کا دہانہ کھول دیا، چناروں میں آگ بھردی اور گل نسترن کھلانے والی دھرتی میں قبرستانوں کو آباد کردیا۔

تم پوچھتے ہو کہ میں نے کس جرم میں تمہیں گھروں میں بند کردیا؟ اگر میں ایک ایک کرکے تمہارے جرائم گنوانا شروع کروں تو دفتر کے دفتر بھرجائیں گے مگر تمہارے جرائم کی فہرست مکمل نہ ہوگی۔ تم وہ ہو جنہوں نے فری ٹریڈ اور مارکیٹ اکانومی کے نام پر لالچ اور ظلم کے تحفظ کا نظام قائم کیا۔ تم وہ ہو جنہوں نے سٹاک ایکسچینج بنائے کہ سرمائے کا ارتکاز چند ہاتھوں میں رہے، بنکوں کی دمکتی ہوئی عمارتیں بنائیں کہ ان میں تمہاری لوٹی ہوئی دولت محفوظ رہے اور پھر اس دولت کو محفوظ تر بنانے کے لیے عدالتیں بنائیں جن کا کام انصاف کے نام پر لالچ اور ظلم کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اور تم وہ ہو جنہوں نے انسانوں کو طبقات اور ذاتوں میں بدل کر اور دین اور دھرم کی بیڑیوں میں جکڑ کر انسان سے نیم انسان بنادیا۔

یاد رکھو، کوئی ماں اپنے بچوں کی تباہی نہیں چاہتی سو میں نے بھی تمہیں ڈھیل دیے رکھی کہ پلٹ آؤ اور سدھر جاؤ لیکن تم اتنے کوڑھ مغرز کہ تم نے کروڑوں انسانوں میں محرومی، بھوک اور موت بانٹتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ ہر ڈھیل کی ایک حد ہوتی ہے اور ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ میں نے اس دھرتی کو امن، آہنگ اور توازن کے اصول پر استوار کیا تھا۔ میں نے خیر کو شر پر اور حسن کو بدصورتی پر فوقیت بخشی تھی لیکن تم نے سب کچھ برباد کردیا۔ تم نے اس دھرتی کو دھوئیں، شور اور آلودگی سے بھردیا۔ تم نے ہریالی سرزمینوں پر کنکریٹ بچھا دیا اور اپنے شہروں کو بدنما اور بھدی عمارتوں سے بھردیا۔ تمہارا یہ جرم بھی ہے کہ تم نے اپنے شہروں سے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں کو نوچ پھینکا، اپنے پانیوں اور فضاؤں میں زہر گھول دیا اور اپنے آسمان کو پرندوں اور اپنے آنگنوں کو چڑیوں کی چہکار سے محروم کردیا۔ اور یہ تم ہی تھے جنہوں نے اپنی سفاکی کو جنگلات تک دراز کردیا اور جنگلی حیات سے ان کی قدرتی پناہ گاہیں چھین لیں۔ تم خود تو تباہ ہوئے سو ہوئے لیکن اپنے ساتھ ساتھ آبی اور جنگلی حیات کو بھی لے ڈوبے۔ تم یہاں تک بڑھ گئے کہ تم نے آسمان میں سوراخ کردیا اور میرے بنائے ہوئے ایکو سسٹموں اور لائف سائیکل کو تباہ کرکے ارضی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا۔

میرے بچو، اب تمہیں سبق سکھانے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ سو میں نے تم پر وائرس چھوڑ دیے۔ کبھی ایک طرح کا وائرس تو کبھی دوسری طرح کا وائرس۔ ان وائرسوں کا مطلب ہے ایک ایسی موت جو تمہارے جسم میں داخل ہوکر تمہارے خلیات کو تباہ کردے اور تمہیں بے بسی کی موت مرنے پر مجبور کردے۔ تم ان وائرسوں کا علاج ڈھونڈتے رہے اور میں نئے سے نئے وائرس تخلیق کرتی گئی۔ کرونا وائرس میرا اب تک کا سب سے مفید ہتھیار ثابت ہوا ہے جس نے تمہیں خوف زدہ ہوکر اپنے گھروں میں بند ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ اپنے سیٹلائٹس، اپنے ڈرونز اور اپنے جدید کیمروں سے پوچھو کہ جس روز سے تمہارے آباد کیے ہوئے شہر تمہارے وجود سے خالی ہوئے ہیں دوسری مخلوقات کی کیسے بن آئی ہے۔ اب ساحلوں، میدانوں اور فضاؤں میں قدرتی حیات مزے سے گھومتی پھرتی ہے کیونکہ اسے تمہارے ہاتھوں غارت ہونے کا خوف باقی نہیں رہا۔

کہاں گئی وہ تمہاری Military Might، تمہارے ایٹمی ہتھیار، تمہاری آبدوزیں اور تمہارے بمبار طیارے؟ کہاں گئی تمہاری دنیا کو کئی بار تباہ کرنے کی صلاحیت؟ کہاں گئے تمہارے سٹاک ایکسچینج جو تمہاری دولت کے اتار چڑھاؤ کا پیمانہ تھے؟ کہاں گیا تمہارا مقدس کارپوریٹ سیکٹر جو غلامی کی جدید شکلوں کو رواج دینے اور ان کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کا پیچیدہ ہتھیار تھا؟ کہاں گئے تمہارے معبد جن کی چوکھٹ پر انسانوں کے معصوم جذبات کی بلی چڑھائی جاتی تھی؟ کہاں گئے تمہارے عقائد جن کو ساری دنیا پر نافذ کرنے کے لیے تم انسانوں کا قتل عام کرتے تھے؟ کہاں گئی تمہاری میڈیکل سائنس جس کی بنیاد پر تم موت پر غلبہ پانے کا دعویٰ کرتے تھے؟ کہاں گئی وہ تمہاری ثقافت، تمہاری تہذیب اور تمہارا تمدن؟ کہاں گئی وہ تمہاری اقتدار کی دوڑ اورکہاں گئیں تمہاری قومی ریاستیں جو طاقت کو تحفظ دینے اور کمزور کو کچلنے کی بنیاد پر قائم تھیں؟

سنو، اے حماقت اور تکبر سے بھرے لوگو، میرے ایک ایک لفظ کو غور سے سنو۔ تم نے مجھے اپنی مہربان ماں کو تباہ کردینا چاہا تھا لیکن میں کوئی وجود نہیں ہوں جسے تباہ کیا جاسکے۔ میں ایک قوت ہوں اور مجھے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے۔ میں اب تک زلزلے، سیلاب، خشک سالی اور بیماریوں کی زبان میں تم سے مخاطب رہی لیکن تم نہ اپنا چلن نہ بدلا۔ اب حجت تمام ہوچکی ہے۔ اب اس سرزمین پر تمہارا نہیں میرا حکم چلے گا۔ میں نے اپنے ’فطری انتخاب‘ کے قانون کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ اب مجھے اس سرزمین پر زندگی کو نئے سرے سے استوار کرنا ہے۔ اس دھرتی اور اس پر آباد ہر ذی روح کو تمہارے شر سے بچانے کے لیے نئے قوانین اور نئے ضابطے وضع کرنے ہیں۔ اب میں نے تمہیں یہ یاد دلانا ہے کہ تم اس دھرتی کے واحد مالک نہیں ہو، لاکھوں انواع اور بھی ہیں۔ یاد کرو ان انواع کو جو اس لیے معدوم ہوگئیں کہ وہ میرے ’فطری انتخاب‘ کے قانون پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ تم میں سے بھی وہی باقی رہے گا جو اس قانون کا احترام کرے گا اور اپنے اندر عجز اور تسلیم کی خو کو پیدا کرے گا۔ خیر، یہ تو تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ کیسے میں نے آن ہی آن میں تمہارے دس ہزار سال کے سفر کو بے معنی ثابت کردیا ہے اورتمہاری طاقت کو خود تمہیں پر الٹادیا ہے۔

اب تمہیں اس وقت تک اپنے گھروں میں چھپے رہنا ہوگا اور ایک دوسرے سے ڈرے ڈرے رہنا ہوگا جب تک میں چاہوں گی۔ میں تمہاری جان بخشی کردوں گی لیکن ابھی نہیں، ابھی مجھے اس دھرتی کو دھوئیں، آلودگی اور موت کے خوف سے پاک کرنا ہے جس کے واحد ذمہ دار تم ہو۔ ابھی مجھے اس جہان رنگ و بو کے خدوخال سنوارنا ہیں جسے تم نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد تم بدلے ہوئے رویوں کے ساتھ زندگی کے عمل میں واپس آسکتے ہو۔

اور ہاں، بات کو صرف ایک کرونا پر موقوف مت سمجھنا، میری زنبیل میں ابھی اور بہت کچھ ہے جو نہ سمجھنے والوں کو سمجھانے اور اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے بہت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments