وینٹی لیٹر نے مجھے نئی زندگی دی


میرا نام تنویر جہاں ہے اور میں گذشتہ پنتیس برس سے سماجی خدمت کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ میں گذشتہ چوبیس برسوں سے دمے کے مرض میں مبتلا ہوں۔ اس دوران بارہا جان لیوا حملوں سے واسطہ پڑا لیکن سب سے تکلیف دہ واقعہ اپریل 2007 میں پیش آیا۔ پہلے اس کا کچھ پس منظر بیان کرتی ہوں پھر اصل واقعہ سناتی ہوں۔ آخر میں اس ساری داستان کا مقصد بیان کروں گی۔

پاکستان میں ایک عمومی رحجان یہ ہے کہ اگر کوئی بیماری میں آپ کی عیادت کے لئے آئے وہ آپ کی بیماری سے متعلق اپنے تجربات، ماہر معالج اور آزمودہ ٹوٹکے بتانا شروع کر دیتے ہیں ایسے ہی ایک موقع پر میری ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ کھیوڑہ میں نمک کی کان کے اندر دمے کے مریضوں کے لئے ہسپتال قائم کیا گیا ہے اور مجھے ایک مرتبہ وہاں جانا چاہیے۔ سٹیرائیڈذ اور ایلوپیتھی دوائیوں کے سائیڈ ایفیکٹ سے تنگ آ کر میں نے یہ تجربہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔

میں نے سوچا آزمانے میں کیا حرج ہے۔ اپنے ایک دوست خالد اسد اور ان کے بیٹے معز کے ساتھ ہم نے ہسپتال کے معلوماتی دورے کا پروگرام بنا لیا اور کھیوڑہ پہنچ گئے۔ ہسپتال دیکھنے اور ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم واپس لاہور آ گئے۔ چند دنوں بعد میں نے اپنا ضروری سازوسامان ساتھ لے کر کھیوڑا کا رخ کیا اور ٹھیک تین گھنٹے بعد نمک کے بنے ہسپتال میں داخل ہو گئی۔ جہاں مختلف عمر کے مریضوں کو علیحدہ علیحدہ کیبنوں میں رکھا گیا تھا۔ مجھے بھی ایک کیبن الاٹ ہو گیا۔ نمک سے بنے لیمپوں کی طرح کیبن میں بھی مختلف رنگوں کی روشنیوں کا اہتمام تھا اور ہر مریض نے مرض کی شدت کے مطابق مقررہ وقت گزارنا تھا۔ کسی قسم کی دوا استعمال نہیں کروائی جاتی تھی۔

میرے لئے بدلتے موسموں کے ابتدائی مہینے زیادہ مشکل ہوتے ہیں۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا بہار کی وجہ سے ہوا میں پولن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو سانس کی نالیوں میں سوزش کا سبب بنتی ہے۔ مجھے ان مہینوں میں معمول سے زیادہ دوا استعمال کرنا پڑتی ہے۔ مجھے تجویز کیا گیا کہ اگر میں اپنی معمول کی دوائیاں استعمال کرتی رہوں گی تو مجھے اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ مجھے سالٹ تھیرپی سے کیا فرق پڑ رہا ہے۔ سو میں نے اپنی دوائیاں ترک کر دیں۔

پہلا دن تو گذشتہ دوائیوں کے اثر کی بدولت صحیح گزر گیا لیکن دوسرے دن شام سے مجھے اپنی سانس میں دشواری محسوس ہونا شروع ہوئی۔ تیسرے دن صورت حال زیادہ بگڑتی محسوس ہوئی اور میں نے ہسپتال سے رخصت لی اور لاہور کا رخ کیا۔ میں تقریباً رات آٹھ بجے لاہور پہنچ گئی۔ میں نے سوچا کل شام اپنے ڈاکٹر کو دکھاٶں گی۔

رات بہت مشکل سے گزری کئی بار نیبولائز کرنے کے باوجود حالت نہ سنبھلی۔ اتفاق سے ہمارا ڈرائیور چھٹی پر گاٶں گیا ہوا تھا۔ میرے علاوہ اس وقت گھر میں کسی اور کو گاڑی چلانی نہیں آتی تھی۔ میں نے ریسکیو 1122 کو ایمبولینس کے لئے فون کیا انہوں نے آنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس زمانے میں ریسکیو والے صرف حادثات سے متاثرہ افراد کی مدد کے لئے آتے تھے۔ میری حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے لائف پارٹنر سے کہا اب میرے لئے مزید برداشت کرنا مشکل ہے۔

گو کہ علی الصبح کسی کو زحمت دینا مناسب نہیں لیکن آپ ساتھ والے ہمسایوں سے درخواست کریں مجھے ہسپتال پہنچا دیں۔ ہمارے ہمسائے (شاہد صاحب) نے بغیر ایک لمحہ ضائع کیے مجھے گاڑی میں ڈالا اور انگریزی فلموں کے سین کی طرح بہت تیزی سے گاڑی دوڑانا شروع کر دی۔ بے ہوش ہونے سے پہلے جو آخری جملہ میری یادداشت میں محفوظ ہے وہ شاہد صاحب کا کہا ہوا یہ جملہ تھا ”وجاہت صاحب ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، اتفاق ہسپتال سب سے نزدیک ہے۔ وہیں چلتے ہیں۔ یہ سات اپریل 2007 بروز اتوار تھا۔ اس کے بعد کے نو دنوں میں کیا ہوا، میری یادداشت میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔

اس کے بارے میں وجاہت کی زبانی معلوم ہوا کہ جیسے ہی گاڑی ایمرجنسی کے گیٹ پر رکی، ایک نوجوان ڈاکٹر باہر کھڑا تھا اس نے فوری طور پر سٹریچر منگوایا، اس پر مجھے ڈالا۔ برآمدے میں کھڑے لوگوں کو آگے سے ہٹنے کے لئے بآواز بلند برا بھلا کہتا سیدھا آئی سی یو کی طرف بھاگا اور ہمیں ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لئے کہا۔ آئی سی یو میں مجھے فوری طور پر وینٹی لیٹر لگا دیا گیا۔ میرا اور وینٹی لیٹر کا نو دن کا ساتھ رہا۔

اس عرصے میں کئی مرتبہ سانس اور جسم کی ڈوری ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔ ہر وقت سانسوں کی گنتی ہوتی۔ کتنے سانس میں نے اپنی کوشش سے لئے اور کتنے وینٹی لیٹر کی مہربانی سے۔ پہلے چار دن تو سب کچھ وینٹی لیٹر کے رحم و کرم پر تھا۔ پانچویں دن سے میرے کوششیں بھی شامل ہونا شروع ہو گئیں۔ میرے ہر سانس کی خبر کے ساتھ میرے عزیزواقارب کی امیدیں جڑی تھیں۔ ہر نیا سانس ان کے لئے میری زندگی کی طرف واپسی کی نوید لاتا۔ میری چھوٹی بہن ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے پر خوف سے کانپنے لگتی، مبادا دوسری طرف میری موت کی خبر ہو۔

اتفاق ہسپتال میں آئی سی یو کے محنتی ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کوششوں، میرے خاندان، دوستوں اور پاکستان بھر میں پھیلے میرے چاہنے والوں کی نیک خواہشات، محبت اور دعاٶں کے نتیجے میں مجھے نویں دن ہوش آ گیا۔ ہوش میں آنے کا جو پہلا منظر مجھے یاد ہے میرے کچھ دوست میرے سرہانے کھڑے تھے ایک دوست شیراز راج نے میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑا ہوا تھا اور میں زور زور سے اپنے سر کو جھٹکے دے رہی تھی۔

میری اس کیفیت سے پریشان ہونے کی بجائے اس نے خوشی سے نعرہ لگایا ”اوئے بچ گئی ہے۔ کہیں نہیں جاتی“ میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اپنے بندھے ہاتھوں اور پیروں کی طرف دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن میری قوت گویائی نے میرا ساتھ نہ دیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ کچھ ایسا حادثہ پیش آیا ہے جس سے میری قوتٍ گویائی ختم ہو گئی ہے۔

اس خیال کے ساتھ دو آنسو میری آنکھوں سے لڑھکے اور میں نے اذیت سے آنکھیں بند کر لیں کہ میرا پروفیشن ہی بولنا ہے اور بغیر آواز کے میں کیسے جی پاٶں گی۔ بعد میں ڈاکٹر نے بتایا کہ وینٹی لیٹر اور لائف سپورٹ نالیوں کے سبب میرے ووکل کارڈ پر خراشیں پڑ گئی ہیں کچھ ماہ کے وائس ریسٹ سے ٹھیک ہو جائیں گی اور میں پہلے کی طرح بول سکوں گی۔ میرے ہوش میں آنے کے بعد میرے عزیزاقارب کی کچھ ڈھارس بندھی کہ زندگی اور موت کی اس کشمکش میں نے موت کو شکست دے دی ہے۔

میں انتیس دن ہسپتال رہ کر جب گھر لوٹی تو تیمارداروں کے اپنے تجربات تھے۔ ان میں کچھ تکلیف دہ کہانیاں تھیں۔ کیسے لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کا علاج درمیان میں چھوڑ کر مریضوں کو ہسپتال سے لے جاتے ہیں۔ میں شاید ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے تھی جنہیں راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ملی اور انہیں بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میری موت اور زندگی میں تین منٹ کا فاصلہ تھا اگر ہم تین منٹ تاخیر سے پہنچتے تو شاید میں آج یہ تحریر نہ لکھ رہی ہوتے۔ میرے دوست احباب نے مل جل کر میرے علاج کے اخراجات کا بندوبست کر لیا۔ مجھے ایسے ہسپتال تک رسائی مل گئی جہاں وینٹی لیٹر دستیاب تھا اور فنکشنل بھی تھا۔ اور مجھے بہترین پروفیشنل میڈیکل سٹاف کی نگرانی میسر تھی۔

پاکستان میں کورونا کی وبا نے ہماری صحت کی سہولتوں کی قلعی کھول دی ہے۔ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں نئے مباحث سامنے آ رہے ہیں کہ سرحدوں کا دفاع زیادہ ضروری ہے یا انسانی جانوں کا۔

ہم سب اس وقت لاک ڈاٶن کی وجہ سے اپنے گھروں میں وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس معمول سے زیادہ وقت دستیاب ہے۔ ”ہم سب“ کے توسط سے اپنی کہانی سنانے کا مقصد ساتھیوں کو دعوت دینا ہے اگر آپ کی زندگی میں بھی کچھ ایسے واقعات ہیں ہم سے شئیر کیجیے ہم کرونا کی وبا کے زمانے میں آپ کی کہانیوں کی مدد سے پاکستان میں صحت کی سہولتوں کے لئے ایک مہم شروع کریں گے جہاں واقعاتی شہادتوں کے ذریعے حکام کی توجہ صحت کی سہولتوں میں بہتری کی طرف دلوانے کی کوشش کریں گے تاکہ مستقبل میں صحت کے حوالے سے کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے بچا جا سکے۔ آپ اپنی کہانی مجھے مندرجہ ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں جسے آپ کی اجازت سے ”ہم سب“ میں بھی چھاپا جا سکے گا۔

tanveer.dchd@gmail.com
ہمیں آپ کی کہانیوں کا انتظار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments