لیڈرشپ اور کرونا: ہم اجتماعی خودکشی کی جانب مائل لگتے ہیں


معروف امریکی مصنف جان سی میکسویل کے مطابق حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جسے راستے کا پتہ ہو، وہ راستہ دکھاتا بھی ہو اور خود اس پر گامزن بھی ہو، مضمون نگار یہ بات گارجین میں لکھے جانے والے اپنے ایک آرٹیکل میں نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو کے بارے میں کہہ رہے تھے جو کرونا بحران کے دوران اپنے موجودہ اقدامات کی وجہ سے امریکی قوم کے رہنما کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں تیزی سے پھیلنے والی اس وبا پر بریفنگ کے دوران صحافیوں سے لڑائی کرنے اور اپنے میڈیکل ماہرین کی رائے مسترد کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔

کچھ اسی قسم کی صورتحال کا پاکستان کو بھی سامنا ہے۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے وزیر اعظم عمران خان ہنوز اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکے، ان کا موقف ہے وہ لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں پچیس فیصد غریبوں کا کیا بنے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی آخری سطح کرفیو ہے اور ہمیں سوچنا پڑے گا کرونا میں کرفیو کیسے کارآمد ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے اگر ہمیں کرونا کے لیے کرفیو لگانا ہے تو ہمیں عوام کے گھروں میں کھانا پہنچانا پڑے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس وہ انفرا اسٹرکچر ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک میں کرفیو لگانا پڑا تو کم از کم ہمارے پاس اس کی تیاری موجود ہو، انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں بھی ہمارے پاس کوئی ٹھوس حل موجود نہیں ہیں لیکن ان کی پارٹی کی جن صوبوں میں حکومت ہے یعنی پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان بھی اس کے زیر اثر ہے عملی طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پرگومگو کی کیفیت طاری ہے۔ خان صاحب نے یہ عذر لنگ پیش کیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں۔

کیا سیاست سے معمولی مس رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور شخص یہ ماننے کو تیار ہو گا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کے وزرائے اعلیٰ اور بیوروکریسی وفاق کی گائیڈ لائنز کے برعکس فیصلے کر رہے ہیں۔ اب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن نہ کرنے کے حق میں نئی تاویل پیش کی ہے کہ ایسا کرنے سے معیشت بیٹھ جائے گی حالانکہ تمام تر دعوؤں کے باوجود اکانومی کا حال پہلے ہی پتلا تھا۔ اس کے برعکس نیویارک کے گورنر کی طرح وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اس بحران میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں جن کی غیر سیاسی مبصرین کھل کر تعریف بھی کر رہے ہیں۔

بدھ کو شاہ صاحب کو چین کی طرف سے پانچ لاکھ فیس ماسک خصوصی چینی جہاز کے ذریعے بزنس ٹائیکون جیک ما کی طرف سے بطور عطیہ پہنچائے گئے۔ وزیر اعلیٰ نے کرونا ٹاسک فورس کے اٹھائیسویں اجلاس میں ہنگامی طور پر 2090 وینٹی لیٹرز، 32 لاکھ حفاظتی کٹس، ایک لاکھ ٹیسٹ کٹس، 29 پورٹیبل ایکسرے مشینیں اور دیگر ضروری سامان درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرین کو گھروں میں راشن پہنچانے کے لئے کچھ این جی اوز کے ذریعے نیٹ ورک بھی بنا لیا ہے۔

شٹ ڈاؤن، لاک ڈاؤن یا کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے جو بھی فیصلے کیے جائیں ان پر عملدرآمد کے لئے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ فریضہ وزیراعظم کا ہے لیکن عملی طور پر وفاقی حکومت کی غلط ترجیحات کے باعث جو کیفیت طاری ہے اس کا عملی مظاہرہ پارلیمانی لیڈروں کی ویڈیو لنک کانفرنس میں دیکھا گیا ہے جس میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی موجود تھے، وزیراعظم اپنی بات کہہ کر خاموشی سے کھسک گئے جس پر شہبازشریف اور بلاول بھٹو نے بائیکاٹ کر دیا۔

جب یہ سوال کیا گیا کہ وزیراعظم نے ایسا کیوں کیا تو ان کی معاون خصوصی محترمہ فردوس عاشق اعوان نے 92 نیوز پر میرے پروگرام ”ہو کیا رہا ہے“ میں فرمایا کہ وزیراعظم کی دیگر اہم مصروفیات تھیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موجودہ بحرانی صورتحال پر اپوزیشن کو آن بورڈ لینے سے زیادہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی کیا بڑی ترجیح ہو سکتی ہے؟ بعداز خرابی بسیار یہ عذر گھڑا گیا کہ وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا کہ اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ ویڈیو کانفرنس میں موجود ہے، انہیں پہلے بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نمائندگی خواجہ آصف اور مشاہد اللہ کر رہے ہیں لیکن آخری مرحلے پر ٹاپ لیڈرشپ نے خود آنے کا فیصلہ کر لیا۔

جہاں تک مجھے علم ہے ویڈیو لنک میں تمام شرکا کی تصویریں نظر آتی ہیں اگر کسی تکنیکی وجہ سے ایسا نہیں تھا تو یہ ان کے سٹاف کی پر لے درجے کی نالائقی ہے کہ وزیراعظم کے علم میں ہی نہیں لایا گیا کہ ویڈیو لنک میں کون کون موجود ہے۔ اتنے سنگین بحران کے باوجود جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں، اگر سیاست گری کی جا رہی ہے تو یہ ایک انتہائی سفاکانہ عمل ہے، حکومت ہو یا اپوزیشن کے سیاستدان ملک مستحکم ہو گا تو ہی سیاست اور حکمرانی ہو سکے گی، نہ جانے کیوں ہم اجتماعی خودکشی کی جانب مائل لگتے ہیں جو بھی فیصلے کیے جائیں مشاورت کا عمل لازمی ہونا چاہیے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

آرمی پبلک سکول پشاور سانحہ کے بعد جب فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تو اس وقت کے وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا تھا جن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شامل تھے لیکن اب وہ اپنی انا کی تسکین کے لئے اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ وقت طعنے بازی کا نہیں ہے ”شریف برادران کو لوٹی دولت واپس لانی چاہیے“ اس بلیم گیم سے اب اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ حکومت نے بالآخر شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کر دی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 15 روپے لٹر کم کی ہیں لیکن اس کے باجود سٹاک ایکسچینج تیزی سے گر رہی ہے، جمعہ کو روپیہ اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے اور ڈالر 169 روپے کا ہو گیا ہے بعدازاں سٹیٹ بینک کی مداخلت پر 4 روپے کمی ہوئی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قریباً دو ملین ڈالر کی ہنگامی مدد بھی مانگی گئی ہے۔

اس کا مطلب واضح ہے کہ سرمایہ کاروں کا اکانومی پر اعتماد بحال ہونے کے بجائے مزید گرتا جا رہا ہے۔ سٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر کم ہونے کی ایک وجہ ہاٹ منی کا اسی برق رفتاری سے انخلا ہے جتنی تیزی سے وہ آئی تھی۔ ہمارے حکمران اور معاشی ٹیم اس نامساعد صورتحال میں بھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ وزیراعظم کا میڈیا سے حالیہ رابطہ ایک اچھا قدم تھا، اس کے باوجود کہ میڈیا پرسنز کو بڑی احتیاط اور ذاتی پسند اور ناپسند کو مدنظر رکھ کر چنا گیا، عمومی طور پر شریف مخالف صحافیوں نے خان صاحب کو خلاف توقع تندوتیز سوالوں کے ذریعے کافی ٹف ٹائم دیا، اس حوالے سے انہیں اور ان کے مشیروں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments