اللہ کریسی چنگیاں


مجھے نہیں پتہ کہ قضا و قدر بارے آپ کے خیالات کیا ہیں اور قسمت، نصیب ایسی اصطلاحات پر آپ کس قدر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم میں نصیب کو مانتا ہوں۔ یہ مجھے میرے تجربات نے سکھایا ہے۔ ہمارے ایک کالم نگار دوست کا تو فتویٰ ہے کہ انسان سب کچھ کتابوں سے سیکھتا ہے اور تمام مسائل کی جڑ کتابوں سے لاتعلقی ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ پانچوں حسوں سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ کتاب تو فقط ایک حِس یعنی بصارت کی راہ علم حاصل کرنے کے کئی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اچھا چھوڑئیے! آ پ کو دو واقعات سناتا ہوں۔

اب کے برس جون کا مہینہ آئے گا تو اس واقعہ کو چار برس ہوجائیں گے۔ رمضان کے دن تھے اور افطار، نماز کے بعد جو سب سے پہلا کام میں کیا کرتا تھا تو سگریٹ سلگانے کا۔ گیارہواں روزہ افطار کر کے جو پہلا کش لیا تو بجائے سرور کے بے چینی کی سی کیفیت ہوگئی ’جیسے بدہضمی ہو۔ گھر کے لان میں ٹہلتا رہا۔ اگلا روزہ تا اچھا گزرا مگر شام کو بدہضمی کچھ سِوا تھی‘ معدے میں درد، پسلیوں میں اینٹھن اور سانس لینے میں دشواری۔ میں نے سگریٹ پھینک دی۔ سب سے چھوٹی بیٹی امامہ ’آگئی اور پھر ہم نے لان میں باقاعدہ دوڑ لگائی۔ طبیعت کا بوجھل پن ٹھیک نہ ہوا تو میں نے دس بارہ پُش اَپ (ڈنڈ) نکالے۔ کچھ دیر بعد طبیعت بحال ہوگئی۔

تیرہویں افطاری اباجی نے ہمارے گھر کی۔ نماز کے بعد لان میں بیٹھ کر میں نے اور اباجی نے جب ایک ایک سگریٹ پی ’تب بھی میری طبیعت گزشتہ کل والی تھی۔ کچھ دیر میں ان کا ڈرائیور لینے آگیا اور اباجی چلے گئے۔ گھر میں افطاری کے بعد والی بے زار کُن اداسی اور سستی طاری تھی۔ میری طبیعت بہتر نہ ہوئی اور جب بازؤں کے پچھلے پٹھے کھچاؤ کا شکار ہونے لگے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ بے وقوفی تھی مگر میں بیگم اور بیٹیوں کو بتائے بغیر گاڑی لے کر نشتر کی طرف نکل کھڑا ہوا۔

راستے میں فیاض اعوان اور یٰسین کو فون کردیا۔ ڈرائیو کرتے ہوئے بازؤں اور گردن کے پٹھوں کا درد بڑھتا گیا۔ مشکل سے نشتر پہنچا، وہاں بدہضمی کا کہہ کر ٹال دیا گیا۔ تب ہم کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ چلے گئے۔ ای سی جی کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ نے زمین پر پیر تک نہیں دھرنا۔ حتیٰ کہ مجھے بیڈ پر بھی وہیل چیئر پر پہنچایا گیا۔

بھیگتی رات، جب دو اڑھائی گھنٹے کی ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹوں کے نتائج آچکے اور مجھے چوہدری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان کے ایمرجنسی بلاک کی بالائی منزل پر ایک بیڈ الاٹ کردیا گیا تو بھائیوں کے اہل خانہ، دوست، دفتر کے ساتھی بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ عالیہ کو میرے پاس پہنچا کر تینوں بیٹیوں کو ان کے چھوٹے تایا ریاض اپنے گھر لے گئے تھے۔ رات گئے بھائی ریاض کے ساتھ زینب، زہرا، امامہ مجھے دیکھنے آئیں۔

بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ تینوں مجھے مل کر بستر کے پہلو میں کھڑی تھیں۔ تب زینب نے شہادت کی انگلی تنبیہہ کے انداز میں میری جانب اٹھاتے ہوئے کہا ”اب آپ نے سگریٹ پی نا ’تو پھر دیکھنا“ اس جملے نے میری بائیس برس کی عادت چھڑوادی۔ اگلے ہفتے انجیو پلاسٹی کر کے ایک سٹنٹ ڈالاگیا اور رگوں میں خون کی روانی بحال ہوگئی۔

دوسرا واقعہ 29 دسمبر سن دو ہزار اٹھارہ کا ہے۔ چھٹیوں کی وجہ سے بچے اور بیگم لیہ گئے ہوئے تھے اور میں گھر پر اکیلا تھا۔ رات گئے گھر آتا۔ اُس روز صبح نو بجے کے قریب اٹھا۔ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آیا تو گیس کی بُو محسوس ہوئی۔ لاؤنج سے ملحق کچن ہے۔ کھڑکیاں، دروازے بند تھے اور کچن میں اندھیرا تھا۔ وہاں بُو بہت زیادہ تھے۔ ہم کتابیں پڑھنے والے بعض بنیادی باتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ میں آپ کو سچ بتارہا ہوں۔ مجھے تب تک علم نہیں تھا کہ ایسی صورت میں بجلی کا کوئی بٹن آن نہیں کرنا چاہیے۔ کچن کے دروازے کے دائیں جانب لائٹ کا بٹن ہے جو ہم داخل ہوتے ہی آن کیا کرتے ہیں۔ اس روز مجھے لائٹ آن کرنے کا خیال ہی نہیں آیا اور میں نے لپک کر دروازے، کھڑکیاں کھول دیے۔

گیس کا والوبند کیا مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ گیس کہاں سے لیک ہوئی ہے۔ آدھے پونے گھنٹے بعد حالات نارمل ہوئے تو میں نے چائے بنانے کا ارادہ کیا۔ سردیوں میں ہمارے ہاں پریشر کم ہی ہوتا ہے۔ والو کھولا تو ہلکی ہلکی شوں شوں سنائی دی مگر چولہا نہ جلا۔ جب دوسری مرتبہ میں نے تیلی جلائی تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے لئے ایک بھپاکا ہوا۔ چولہے سے میرے پیروں تک آگ کی ایک لپک، ایک پھنکار جس نے میرے ہاتھوں اور پلکوں کے بال جھلسا دیے اور اپنے داہنے پیر کی چھت جلادی۔

سردی سے بھاری ہو کر جو گیس نیچے بیٹھ چکی تھی، وہ ایک بھپاکے سے جلی اور پھر چولہے میں آگ لگ گئی۔ جسے میں نے بڑی مشکل سے مین والو بند کر کے بجھایا۔ گزشتہ شام نکلتے ہوئے میں نے توے پر سلائس گرم کیے تھے۔ توا اتار کے رکھا تو وہ کہیں چولہے میں آنے والی ربڑ کی پائپ کو چھوگیا۔ اس سوراخ سے گیس لیک ہورہی تھی۔ رات گئے گھر آیا تو بو اس لئے محسوس نہ ہوئی کہ رات 10 سے سویر 6 بجے تک گیس بند رہا کرتی ہے۔

پیر پر جلنے کا نشان سب کو نظرآتا ہے مگر دل کا صرف میں دیکھ سکتا ہوں۔ تاہم یہ دونوں نشان مجھے احساس دلاتے ہیں کہ میرا مرنا جینا ’دور کہیں کسی محفوظ تختی پر لکھا ہوا ہے۔ جس کیفیت میں ڈاکٹر نے مجھے بستر سے پیر نیچے رکھنے کو منع کردیا‘ اُس حالت میں ایک روز پہلے ڈنڈ بیٹھکیں نکالتا رہا۔ پھر ہمیشہ کا معمول کچن میں گھستے ہی بجلی کا بٹن دبانا میں کیوں کر بھول گیا؟ نہ بھولتا تو جو بھپاکا ہوتا وہ صرف پیر ہی نہیں ’یہ پانچ فٹ آٹھ انچ کا پورا بُت روسٹ کردیتا۔ گھر میں تھا بھی اکیلا‘ کوئی مدد کو بھی نہ پہنچ پاتا۔

یہ واقعات سنا کر مجھے بس ایک سطر کہنی ہے۔ احتیاط کیجئے، احتیاط کیجئے، احتیاط کیجئے۔ تین درجے احتیاط کو دے کر پھر اللہ کی ذات پر چھوڑ دیجئے۔ اونٹ کا گھٹنا باندھنا آپ کا کام ہے پھر اس کی حفاظت اللہ کا ذمہ۔ احتیاط لازم مگر کرونا کے ہاتھوں نفسیاتی مریض نہ بنیں۔ اللہ کریسی چنگیاں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments