وبا کی آفت اور شیخ حرم کے غمزے


ابھی شب معراج گزری ہے اور شعبان کا مقدس مہینہ شروع ہی ہوا ہے اور ہم کورونا جیسی آفت سے جھونجھ رہے ہیں کہ کیسے دنیا کو اس آفت سے بچایا جائے، شب معراج، اس تاریخ انسانی کی ایک بھید بھری اور شاید سب سے پراسرار رات ہے کہ مادے اور روح کے بھید اللہ کے بندے پہ کیسے منکشف ہوئے۔ آپ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ یہ تو یک طرفہ بیانیہ ہے، ماننے والوں کا ایمان والوں کا بیانیہ ہے، بات دراصل یہ ہے کہ کالم کا محرک ہی وہ مسئلہ ہے جو ایمان والوں کا پیدا کیا ہوا ہے، سو نہ ماننے والے سلامت رہیں ان سے معذرت، تو بات یہ ہے کہ اللہ کا وہ پاک بندہ جو اس رات دنیا کے سب سے انوکھے سفر پہ روانہ ہوا اور واپس آیا اس بھید بھری رات میں اور امت کے لیے کیا تحفہ لایا؟

نماز۔ جی ہاں وہی اللہ کا بندہ جس کے لیے وہ رَب فرماتا ہے، پاک ہے وہ رَب جو راتوں رات لے گیا اپنے بندے کو۔ اب میں آپ سے پوچھوں کہ اہم کون ہے؟ مضمون کا مفعول کون ہے تو میرے خیال میں آپ سب بلا تامل کہیں گے محمد رسول اللہ صلعم یعنی اللہ کا پاک بندہ تو نماز یقینا دوسرے نمبر پہ آگئی۔ بس یہ اتنی سادہ سی بات ہے جسے ہمارے ان حلوے مانڈے کے مولویوں نے راکٹ سائنس سے زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔ آپ یہ اعتراض اٹھاسکتے ہیں کہ کہاں اللہ کا جلیل القدر پیغمبر اورکہاں ہم عاصی۔

جناب عاصی گناہ گار سیاہ کار سہی مگر ہم ہوں گے تو نماز قائم ہوگی۔ ہم رہیں گے تو نماز کو جاری رکھ سکیں گے۔ گو کہ اس طبقے میں بھی ایسے محترم علما حضرات ہیں جنھوں نے حق گوئی و سچائی سے کام لیا اور باجماعت نماز کی پابندی کی بات کی مگر ہمیشہ کی طرح اس حساس معاملے میں علماء تفرقے کا شکار ہیں اور مولانا منیب الرحمان، تقی عثمانی صاحب اور شہنشاہ نقوی کی جانب سے باجماعت نماز پہ اصرار ہے۔ کیا یہ علما چاہتے ہیں کہ ہماری پاکیزہ مسجدیں ناپاک جراثیم کی آماجگاہ بن جائیں اور لال مسجد کی طرح ہر مسجد کے ماتھے پہ لہو ہو؟

ان مولویوں کا وہی حال ہے جو بغداد پہ چنگیز خان کے حملے کے وقت علما کا تھا جو اس وقت عیسی علیہ السلام کی بابت لڑ رہے تھے کہ وہ جَو کی روٹی کھا رہے تھے یا گیہوں کی، اور چنگیز خان نے جَو اور گیہوں دونوں کو رگڑ دیا۔

یہی حال ان علما کا ہے یہ اَب بھی اپنی دکان داری بڑھا رہے ہیں، انہیں قرآن کا، اپنے پیغمبر کا قول یاد نہیں کہ ایک انسان کی ناجائز ہلاکت ساری انسانیت کی ہلاکت کے مترادف ہے۔ یہ بجائے عوام الناس کو بتاتے کہ نماز معطل نہیں ہوئی صرف جماعت سے دوری ہے، آپ اپنے گھروں میں متعکف رہیئے اور کیا معتکف ہونا اسلام کا حصہ نہیں ہے؟ کیا معتکف ہونا صرف رمضان کے آخری عشرے کے لئے ہی واجب ہے؟ ایسے حالات میں عوام کو ان مولویوں کو بھاڑ میں جھونکنا چاہیے اور اپنی جانوں کی خود حفاظت کرنا چاہیے۔

میں حیرت اور تاسف سے دم بخود ہوں کہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بند کردیا گیا، پولیس چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ حج بھی معطل ہے، وہ جو ہمارا قبلہ ہے وہ مسجد جو سب سے پاک و افضل ہے اس سے زیادہ فضیلت و برکت کہاں ہے تو یہ ہمارا مُلا اپنا ڈیڑھ اینٹ کا الگ قبلہ کیوں بنانے پہ مصر ہے؟

کہیں سے آن لائن جماعت کی آواز آٹھ رہی ہے جس پہ دست بستہ گزارش کہ نہ کریں، یہ پنڈورا باکس نہ کھولیے۔ آن لائن بہت کچھ بِک رہا ہے نماز کو نہ بیچئے، جماعت ہر گھر میں منعقد ہوسکتی ہے، کچھ عرصہ کے لیے عوام کو بتائیے کہ کیلکولیٹر سے دور رہ کر جمع ضرب کے بغیر سچی نماز ادا کرلیں اور عین ممکن ہے کہ یہ نماز اللہ رب العزت کے ہاں ایسی مقبول ہو کہ سچ میں بخشش کا ذریعہ بن جائے کہ انسانوں کی زندگی بچانے سے احسن اقدام کوئی نہیں۔

میرے خیال میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہی نماز ہے جو بیماری میں بیٹھ کر ادا کی جاتی ہے، نماز آشاروں پہ آجاتی ہے جو اس بات کا بین ثبوت کہ بہرحال مقدم انسان ہی ہے۔ یہ لاکھوں انسانوں کی جان کا مسئلہ ہے جس سے کھیلنے کی اجازت بہر حال حکومت اور مقتدر قوتوں کو اس طبقے کو قطعاً ًنہیں دینا چاہیے۔ منبر رسول سے مولانا حضرات نے اس وقت بجائے آگاہی دینے کے، نوجوانوں کو علم وسائنس و ہنر کی طرف مائل کرنے کے کہ ہم مسلمانوں میں بھی ایسے درخشاں ستارے پیدا ہوں جو ایجادات کے موجد ہوں، تا کہ ہم ایسی وباؤں کا مقابلہ کر سکیں، ایک انتہائی افسوسناک کردار ادا کیا ہے اور دماغ کا یہ کیڑا کرونا وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔

تاریخ اسلامی میں مُلا برادری نے جو کردار اس وَبا، اس موذی بلا، کے دنوں میں نبھایا ہے یہ ان کے ماتھے پہ سیاہ داغ ہے جوہمیشہ یاد رَکھا جائے گا اور جب یہ اسی قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑہیں گے یا حاضری دیں گے تو کہنے والے ضرور کہیں گے کہ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments