شربت گلہ سے ایف آئی اے کی سکنج بیں تک
دسمبر1984ء میں ایک انگریز فوٹو گرافراسٹیو مک کیوری کے کیمرے سے بنائی گئی سبز آنکھوں والی افغان دوشیزہ شربت گلہ کی تصویرجب 1985ء میں مشہور عالم جریدے نیشنل جیوگرافک کے ماتھے پر چھپی تو پوری دنیا میں اس ششدر آنکھوں سے کیمرے کو تکتی ہوئی لڑکی کی تصویر نے دھوم مچا دی۔ اسے لیونارڈو ڈائیونچی کی مشہور عالم تخلیق مونا لیزا کے مماثل قرار دے دیا گیا۔ پشاور شہر کے مہاجر کیمپ ناصر باغ میں آباد اس لڑکی کے پورٹریٹ کو افغان مہاجرین کیلئے مغرب سے امداد حاصل کرنے کیلئے بہترین ماڈل کا درجہ دے دیا گیا۔ 2002ءکے اوائل میں شربت گلہ پشاور کے اس مہاجر کیمپ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھی جوکہ افغانستان میں روسی افواج کے حملہ کے بعد پاکستان میں ہجرت کرکے آجانے والے مہاجرین کا سب سے بڑاڈیرہ تھا۔ یہی وہ دن تھے جب انگریز فوٹو گرافر اسٹیو مک کیوری روس افغان جنگ کے اثرات کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے نکلے تھے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسی منفرد تصویر بنا پائیں گے جو ان کو شہرت کی بلندیوں تک لے جائے گی۔
شربت گلہ کی تصویر نیشنل جیوگرافک کے سرورق پرافغان لڑکی کے نام سے 1985ء میں نمودار ہوئی۔ چھپنے سے قبل اس تصویر کوامریکی ریاست جارجیا کے گرافک آرٹ سٹوڈیو میں ری ٹچ کیا گیا۔ کیمرے کو براہ راست گھورتی ہوئی سبز آنکھوں والی افغان لڑکی کی اس تصویر نے پوری دنیا میں لوگوں کے دل موہ لئے۔ اسے سب سے زیادہ جانی پہچانی تصویر کا عنوان بھی ملا۔ بلا شبہ یہ مونا لیزا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی قابل ذکر تصویر کہلائی۔ اور پھر میگزین کی اپنی تاریخ میں بھی اس تصویر نے پسندیدگی کا ریکارڈ قائم کردیا۔ انہوں نے لکھا کہ بولتی ہوئی آنکھوں والی اس تصویر میں غیر معمولی گلیمر اور چمک ہے۔ اس شہرہ آفاق تصویر کو نیشنل جیوگرافک میگزین نے تین بار اپنے سرورق پر چھاپنے کیلئے منتخب کیا جو کہ ایک اور بڑا اعزاز اور ریکارڈ ہے۔
اسٹیو مک کیوری نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں شربت گلہ کو دوبارہ دیکھنے کیلئے پشاور کے کئی دورے کئے مگر اسے ہر بار ناکامی ہوئی۔ وہ اپنی ہی کھینچی ہوئی اس مشہور تصویر کو ہاتھوں میں لئے ہوئے پشاور کی گلیوں بازاروں اور عوامی اجتماع کے حلقوں میں گھومتااورلوگوں کودکھا دکھا کر پوچھتا رہتا۔ اکثر اسے پوسٹروں کی شکل میں یا دوکانوں، ریستورانوں میں دیواروں پر آویزاں اپنی اس تخلیق کو بھی دیکھنے کا موقع ملتا تو اسے ایک روحانی خوشی ہوتی۔ اس کھوج میں اسے کئی چکر باز لوگ بھی ملے جنہوں نے شربت گلہ کو دیکھنے اور ملنے کا دعویٰ کیا، لیکن مذکورہ عورت تک پہنچ کر مک کیوری کو مایوسی ہوتی کہ وہ عورت اس کی تصویر جیسی نہیں ہوتی تھی۔ آخر ایک دن اس کی محنت رنگ لائی، اسے شربت گلہ تک لے آئی جو اب ایک تیس سالہ شادی شدہ برقعے والی عورت بن چکی تھی جس کی تین بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹی فوت بھی ہو چکی تھی۔ وہ افغانستان میں تورا بورا کی پہاڑیوں کے نزدیک چھوٹے سے گاﺅں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اس کا خاوندرحمت گل ایک نانبائی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک بہترین دریافت تھی اور مک کیوری نے مکمل تصدیق کی خاطرموجودہ شربت گلہ کی تصاویر کو دوبارہ بناکرنیشنل جیوگرافک سوسائٹی واشنگٹن کے دفترمیں بھیجا جہاں پر گرافکس آرٹس کے ماہرین کی ٹیم نے ان تصاویر میں آنکھوں کے قرنیے کو ڈیجیٹل طریقے سے میچ کرکے بتایا کہ یہی پرانی والی شربت گلہ ہے۔ یوں اس افغانی لڑکی کو ایک بار پھر دوبارہ دریافت ہونے کی کہانی بنا کر اس میگزین کے سرورق پر چھاپا گیا۔
یہ تو تھی شربت گلہ عرف سبز آنکھوں والی افغانی لڑکی کی گمنامی سے شہرت تک کی کہانی،اب آتے ہیں شربت کی زندگی کی دوسری اور دکھ بھری کہانی جو کہ ہرمہاجر کی اصل کہانی ہوتی ہے۔ اس کے والدین روسی افواج کی بمباری میں مارے گئے تو یہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پشاور کے مہاجر کیمپ میں پہنچی جہاں اس کی تیرہ،چودہ سال کی عمر میں ایک نانبائی سے ہوجاتی ہے جو اسے 1990ء میں واپس افغانستان اپنے گاﺅں میں لے جاتا ہے۔ جہاں اس کے چار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانا چاہتی ہے لیکن غربت اور وسائل کی کمی اس مقصد میں آڑھے آتی ہے۔ فوٹو گرافر کے پوچھنے پر وہ بتاتی ہے کہ اس نے کبھی اپنی یہ شہرہ آفاق تصویر نہیں دیکھی۔ یہ بھی خدا کی مرضی سمجھتی ہے کہ وہ اب تک زندہ تھی۔
اب 2015ء میں پاکستان سرکار کی قومی ڈیٹا بیس رجسٹریشن کے ادارے نادرا کے مطابق جو خبر اخبارات کو چھپنے کے واسطے ملتی ہے،اس کے مطابق شربت گلہ نامی افغانی عورت اور اس کے دو بیٹوں کی پاکستانی شناخت کو کینسل کرنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ شناختی کارڈ غیر قانونی طریقے سے حاصل کئے گئے۔ یقیناً وہ دونوں افغانی نوجوان شربت گلہ کے بیٹے نہیں ہونگے اور ان کو باقی افغانی مہاجرین کی مانند شناختی کارڈ بنوانے کیلئے بیٹے ظاہر کرکے نام شامل کر دئیے گئے ہونگے،ایسی وارداتیں مہاجرین میں عام ہیں۔ ایک رشتہ دار نے بتایا کہ شربت گلہ کا گھرانہ یہیں پاکستان میں رہتا ہے مگر تحفظ کے پیش نظر سرحد کے آر پار آتا جاتا رہنا معمول کی بات ہے۔
26اکتوبر2016ءکے دن شربت گلہ کوایف آئی اے جعلی شناختی کارڈ بنوانے کے الزام میں گرفتار کر لیتی ہے اور یوں یہ شہرہ آفاق کردار ایک بار پھر کیمرے اور میڈیا کی روشنیوں کے نرغے میں آجاتا ہے۔ تصاویر میں آپ گھورتی ہوئی سبز آنکھوں والی اس مشہور زمانہ ہستی کو ایف آئی اے کے تفتیشی مرکز میں بیٹھا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں پر اسے عدالتی ریمانڈ کیلئے پیشی کے واسطے تیارکیا جا رہا ہے۔ افغان سفیرعمر زاخیل وال نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے شربت گلہ کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے چھڑوانے کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا ہے۔ لیکن ادھر ایف آئی اے شربت گلہ کو یکم نومبر کی صبح عدالتی ریمانڈ کیلئے پیش کرنے والی ہے۔ اگر یہ جرم شربت گلہ پر ثابت ہوجاتا ہے تو اسے چودہ سال قید کے علاوہ پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ ادھر نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اس معاملے کو پورے غور سے مانیٹر کررہی ہے اور وہ پاکستانی حکام کے ساتھ انسانی حقوق کی بنیاد پر اس کی رہائی کے سلسلے میں رابطے میں ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی مارکیٹنگ آفیسر” ایما کارسکو “نے اپنے ایک بیان میں شربت گلہ کی زندگی کو پے درپے مشکلات اور دکھوں سے نبرد آزما رہنے والی قرار دیا ہے۔ شربت گلہ بے چاری کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این سی ایچ سے رجسٹرڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ عالمی ادارہ چاہتے ہوئے بھی اس کی کوئی قانونی مدد نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ شربت گلہ کا افغانی گاﺅں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور وہ پاکستان میں ہی مستقل رہائش پذیر رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے بچے اپنی ماں کو بلا رہے ہیں،وہ اس لئے پاکستان نہیں آتے کہ کہیں انہیں بھی ماں کے ساتھ نہ دھر لیا جائے۔
نادرا کے تین افسران بھی اس کیس میں پکڑے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ نے اگرچہ شربت گلہ کے معاملے کو انسانی حقوق کی بنیاد پر دیکھنے اور ممکنہ ضمانت کی یقین دہانی کرائی ہے مگر انہوں نے اپنے تحفظات ان اہلکاروں کے بارے میں بھی بیان کردئیے جو اسی مقدمے کے نتیجے میں گرفتار ہوئے ہیں۔ اب اگر مرکزی ملزمہ شربت گلہ کو رہائی ملتی ہے تو ان سرکاری ملازمین کا جرم کتنا جرم باقی رہ جاتا ہے؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں گورنمنٹ کیسے اس معاملے کو سلجھاتی ہے۔ آیا اس عالمی شہرت یافتہ افغان لڑکی کواس برطانوی ٹیکسی ڈرائیور کی طرح قید سے رہائی مل جائے گی جسے پرنس چارلس اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، یا ریمینڈ ڈیوس کی طرح کوئی اڑن کھٹولا اسے بھی جیل کی سلاخوں سے چھڑوا کر اڑا لے جائے گا۔ خیر یہ اس طرح کا سنگین کیس تو نہیں ہے مگر جیسا کہ بتایا جا رہا ہے کہ سزا کی مدت چودہ سال ہی ہے جو سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کو دی جاتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ایف آئی اے پاکستان شربت گلہ کو سبز آنکھوں سے مسحور کر دینے والا شربت ہی رہنے دیتی ہے یا اسے پاکستانی جیلوں میں خوارکر کے دیسی سکنج بیں بنا دے گی۔
- نیو یارک یاترا - 04/01/2024
- محبت کا لوک گیت: امروز - 29/12/2023
- کچھ باتیں احمد سلیم کی - 15/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).