زبان کا مسئلہ


 پاکستان کی تخلیق دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد ہر ایک الگ قوم مانتا ہے۔ مگر جس وقت مسلمانوں کے لیے ایک \"Picture_Zubairالگ مملکت کا مطالبہ کیا جاتا تھا، اس وقت دنیا میں قومیت کا تصور وطن، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر پل رہا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس الگ قوم کے لیے ایک زبان اور ثقافت کا ہونا بھی لازم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم ہند سے پہلے اردو زبان کو صرف مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش جاری تھی۔

قومیت کے لیے مذہب، زبان اور ثقافت کا یہ ابہام پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے زبان کے مسئلے کو پاکستان کی کسی تعلیمی پالیسی میں حل نہیں کیا گیا۔

پاکستان کی تعلیمی پالیسیاں اردو کی طرف زیادہ مائل رہیں، لیکن اردو اور انگریزی کے متعلقہ رتبے (status) ہمیشہ مبہم رہے۔ البتہ ان پالیسیوں سے \’علاقائی\’ زبانوں پر ہمیشہ اردو کو فوقیت دی گئی۔ دوسرا بڑا چیلنج جو زبانوں سے متعلق برقرار رہا، وہ زبانوں کی تعلیمی افادیت اور قومیت سازی میں زبانوں کے کردار کا باہمی ٹکراو تھا۔ انگریزی کو اس کی علمی وسعت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جاسکا اور \’علاقائی یا صوبائی\’ زبانوں کو \’قومی وحدت\’ کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔ ان پالیسیوں میں انگریزی زبان کو لعن طعن کا نشانہ تو بنایا گیا لیکن کہیں بھی اس سے جان نہ چھڑا سکے۔ دوسری طرف علاقائی اور دیگر زبانوں کو \’قومی وحدت\’ کے لیے خطرہ سمجھ کر ان سے انکار ہی نے اس \’قومی وحدت\’ کو پاش کرکے رکھ دیا۔ جس کی اہم مثال بنگلا دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

قومی تعلیمی پالیسیوں کے سامنے کئی سوالات مثلاً ملک کے لیے ایک زبان کون سی ہونی چاہیے؟ انگریزی کی کیا حیثیت ہو؟ کون سی زبان ذریعہ تعلیم (medium of instruction) ہو؟ علاقائی زبانوں کی حیثیت کیا ہو؟ کون سی زبان تعلیمی اداروں میں بطور مضمون، اور کس جماعت سے شروع ہو؟ ایسے سوالوں نے ہمیشہ تعلیمی پالیسی سازوں کو پریشان کیے رکھا۔

1947ء سے اب تک پاکستان میں لگ بھگ نو تعلیمی پالیسی دستاویزات مرتب کی گئیں۔ ان میں سے پانچ کو فوجی آمروں کے ادوار میں مرتب کیا گیا۔

نومبر، دسمبر 1947ء کو کراچی میں پہلی پاکستانی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں نئے مملکت کے تعلیمی خدوخال کے لیے سفارشات، ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کی گئی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اس نئی مملکت کے لیے بنیادی تعلیمی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، \’\’اردو نے ایک غیر معمولی قوّت (vitality) اور حساسیت دکھائی ہے۔ اردو خیالات کی ساری سطحیں ( shades of thoughts ) اور تخیل کے پیچیدہ اور نازک پروازوں کے اعلیٰ اظہار اور ابلاغ کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے\’\’۔ (حوالہ گورنمنٹ آف پاکستان رپورٹ 1947ء )۔ اس کانفرنس میں اردو کو \’رابطے کی زبان\’ (lingua franca) قرار دیا گیا۔ فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا، \’\’جس آسانی سے اردو دوسری زبانوں سے الفاظ مستعار لیتی ہے، اردو کا فارسی، عربی اور سنسکرت سے تاریخی رشتہ اور شاعری و نثر میں اردو کی اعلٰی تخلیقی صلاحیت اس کو پاکستان کی رابطے کی زبان بنانے کے لیے ناقابل تردید جواز ہیں\’\’۔ اس کانفرنس میں انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم مضر گردانا گیا، تاہم اسے مغرب کے سارے سائنسی خزانوں اور تہذیبوں کو رسائی کا ذریعہ مانا گیا۔ اسی اجلاس میں صوبائی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ زبانیں نہ صرف ذریعہ تعلیم ہیں بلکہ ثقافت کی ابلاغ کے وسیلے بھی ہیں۔ اسی کانفرنس کی تعلیم پر کمیٹی نے تجویز کیا کہ تعلیم میں ذریعہ تعلیم ( medium of instruction ) کا اختیار صوبوں کے پاس ہونا چاہیے، تاہم اردو کو ہر صوبے میں ایک لازمی دوسری زبان کی حیثیت ضرور حاصل ہو۔ اسی طرح انگریزی کو بھی نصاب میں ایک لازمی زبان کے طور پر رکھنے کی سفارش اسی کانفرنس میں کی گئی۔

اگلے بارہ سالوں کے لیے پاکستان میں تعلیمی پالیسی پر کوئی دستاویز نہیں ملتی۔ ان دس سالوں میں تاہم بڑے اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان میں اہم ترین واقعہ بنگالی زبان کو بطور قومی زبان تسلیم کروانے کے لیے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تحریک ہے۔

بنگالی لوگ تقسیم سے پہلے ہی اردو کو مسلمانوں کی واحد زبان بنانے پر ناراض تھے۔ وہ بنگالی کو بھی مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے۔ تقسیم کے بعد اس وقت کے پاکستانی قیادت نے بنگالیوں کے اس مطالبے کو یکسر نظر انداز کیا۔ خود بانی پاکستان نے 1948ء میں ڈھاکا میں واضح کیا، کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔ یوں بنگالیوں میں اضطراب بڑھتا چلا گیا۔ انھوں نے بنگالی زبان کے لیے قومی زبان کی حیثیت کے لیے تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے زیر اثر 1952ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے مشتعل طلبا پر پولیس نے گولی چلائی، جس کے نتیجے میں کم از کم سات طالب علم ہلاک ہوئے۔ اس تحریک کا اثر تھا کہ پاکستان نے 1954ء میں اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان تسلیم کیا، اور 1956ء کے ائین میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ ابھی اس آئین کو دو سال ہی ہوئے تھے کہ ملک میں 1958ء کا مارشل لا لگا اور جنرل ایوب خان ملک کے حکمران بن گئے۔

جنرل ایوب کے دورحکمرانی کے دوران ہی 1959ء کو تعلیم پر قومی کمیشن ( Commission on National Education) بنا۔ اس کمیشن کی رو سے اردو اور بنگالی دونوں کو پاکستان کی قومی زبانیں تسلیم کیا گیا۔ اس کمیشن نے سفارش کی کہ قومی زبانیں بتدریج انگریزی کی جگہ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم ہوں گی، تاہم انگریزی کو چھٹی جماعت سے آگے ڈگری سطح کی تعلیم تک ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ اسی پالیسی میں کہا گیا، کہ اگلے پندرہ سالوں میں یونیورسٹی سطح پر اردو زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی کی جگہ لے گی۔

1965ء کو پاکستان اور ہندوستان کے بیچ میں جنگ چھڑ گئی۔ دوسری تعلیمی پالیسی 1969ء میں آئی۔ اس دوران ملک کے حکمران جنرل یحیٰی خان تھے۔ اس پالیسی میں جو نئی باتیں شامل کی گئیں، وہ اردو کو مغربی پاکستان میں اور بنگالی کو مشرقی پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ دینا تھا۔ اسی پالیسی میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ انگریزی کی تدریس، بتدریج گھٹا کر اسے قومی زبانوں (اردو اور بنگالی ) میں تبدیل کیا جائے گا۔

اگلے سال 1970ء میں ایک اور تعلیمی پالیسی مرتب کی گئی، جس میں کوئی نئی بات نہیں تھی، ماسوائے اس سفارش کے، کہ ذریعہ تعلیم کے طور پر زبان اپنانے کے وقت دیکھا جائے کہ وہ زبان تعلیم کے حصول میں آسانی پیدا کرے، جس میں ابلاغ واضح اور معروضی طور پر کیا جاسکے؛ اور جس سے تخلیقی اور تنقیدی فکر (creative and critical thinking) فروغ پائے۔

1971ء کو پاکستان اور انڈیا کے بیچ میں تیسری جنگ چھڑ گئی، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلا دیش بنا۔

1972ء کو ایک اور تعلیمی پالیسی سامنے ائی۔ اس وقت ملک پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ اس تعلیمی پالیسی میں زبان کے مسئلے کو سرے سے چھیڑا گیا نا ہی ذریعہ تعلیم کا ذکر کیا گیا۔

1973ء میں پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے پہلا متفقہ آئین منظور کیا۔ اس آئین میں زبان اور ثقافت کے حوالے سے آرٹیکل 251 اور 28 اہم ہیں۔ ملک میں شہریوں کو اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کا حق دیا گیا، تاکہ وہ اس حق کو اردو کے بر خلاف استعمال کرے۔ اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ صوبائی اسمبلی کو اختیار دیا گیا، کہ وہ صوبے کی کسی زبان کے فروغ و ترقی کے لیے ادارے بنائے، لیکن یہ اقدامات اردو سے \’تعصب\’ پر مبنی نہ ہوں۔ آئین میں وعدہ کیا گیا کہ آیندہ پندرہ سالوں میں اردو کو دفتری/ سرکاری زبان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

1977ء میں جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ جنرل ضیا نے پورے ملکی نظام کو اپنی فہم کے مطابق اسلامی بنانے کی ٹھانی۔ انھی کے دور میں 1979ء میں چھٹی تعلیمی پالیسی آگئی۔ اس پالیسی میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا گیا۔ نجی اسکولوں میں بھی اردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کیا گیا۔ اردو کے فروغ کے لیے اقدامات کیے گئے اور اسے مسلم شناخت کی علامت بنایا گیا۔ اس پالیسی میں سفارش کی گئی کہ اردو ذریعہ تعلیم ہوگی، تاہم اس کے ساتھ تیسری جماعت سے ایک علاقائی زبان کو بھی پڑھایا جائے گا۔

1989ء میں ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں تعلیمی پالیسی پر کوئی کام نہ ہوسکا۔ ان کی حکومت کو جلد فارغ کردیا گیا۔

محمد نواز شریف کی پہلی حکومت نے 1992ء میں تعلیمی پالیسی بنائی، جس کی رو سے ذریعہ تعلیم کا فیصلہ صوبوں نے کرنا ہے۔ جہاں وہ کسی ایک صوبائی زبان، اردو یا انگریزی کو ذریعہ تعلیم بناسکتے ہیں۔ اس پالیسی نے آگے سفارش کی، کہ اعلٰی سائنسی و تکنیکی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی۔

اس دوران یہ جمہوری حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت بھی جلدی ختم ہوا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں دوسری مرتبہ محمد نواز شریف کی حکومت آئی، جس نے 1998ء کو ملک کی آٹھویں تعلیمی پالیسی مرتب کی۔ اس پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی ماسوائے عربی زبان کے فروغ کے۔

1999ء میں فوج نے ایک بار پھر جمہوری حکومت کو چلتا کیا، اور ملک کے حکمران اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بن گئے۔ ان کی حکومت کے دوران خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینڑ اور پینٹاگون واشنگٹن پر حملے ہوئے، جس کی ذمہ داری افغانستان میں اس وقت کے طالبان حکومت کے مہمان اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ نے تسلیم کی۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور امریکا کی قیادت میں پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی۔ پرویز مشرف کی حکومت امریکا کی اتحادی بن گئی۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی بیانیہ شروع ہوا۔ تاہم پاکستان میں حالات مختلف رہے۔ مرکز میں پرویز مشرف کی نام نہاد \’روشن خیال\’ حکومت تھی جب کہ افغانستان سے متصل صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں سات مذہبی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی۔ جنرل مشرف نے خود کو دنیا کے سامنے روشن خیال بنا کر پیش کیا۔

ان کی دور حکومت کے دوران تعلیمی و نصابی اصلاحات کی بہت باتیں کی گئیں۔ مشرف کی حکومت نے تعلیمی پالیسی بنائی، جسے 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پیش کیا۔

اس پالیسی میں ایک طرف انگریزی کو اہمیت دی گئی، تو دوسری طرف اسے ملک میں عدم مساوات کی ایک اہم وجہ بھی مان لیا گیا۔ اس پالیسی کی رُو سے انگریزی زبان کچی جماعت (KG ) سے ایک مضمون کے طور پر شامل ہوگی اور اس کے لیے منصوبہ بندی کا اعلان کیا گیا۔ تعلیم میں پیچھے رہ گئے طبقات پر خصوصی توجہ کا وعدہ کیا گیا۔ جماعت اول ہی سے اردو، انگریزی، ایک صوبائی زبان اور ریاضی کے مضامین رکھنے کی سفارش کی گئی۔ پانچویں جماعت تک ذریعہ تعلیم اپنانے کا اختیار صوبوں کو دیا گیا۔ چھٹی جماعت اور اس سے آگے سائنس اور ریاضی کے لیے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ معاشرے کے نچلے طبقات کے بچّوں کو انگریزی پڑھانے کی بات بھی، اس پالیسی میں کی گئی۔ آخر میں زبانوں کے حوالے سے صوبوں، وفاق اور دوسرے تمام شرکا (stakeholders) کی مشاورت سے جامع پالیسی (language policy) مرتب کرنے کی بات کی گئی۔

2009ء کے بعد وفاقی سطح پر کوئی تعلیمی پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ 2010ء میں پاکستان کی آئین میں اٹھارویں ترمیم ہے، جس کی رُو سے تعلیم کا شعبہ صوبائی بن گیا۔ اس کے بعد اب تک وفاقی سطح پر تعلیم کی کوئی پالیسی نہیں آئی۔ البتہ امسال کے شروع میں وفاقی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی 2016ء (National Education Policy 2016) کی باتیں میڈیا میں گردش کر رہی تھیں، لیکن ابھی تک اس پر پیش رفت کی کوئی خبر نہیں آئی۔

آئین میں اٹھارویں ترمیم (18th Amendment) میں ایک اہم پیش رفت آرٹیکل 25A کا شامل کرنا ہے، جس کی رُو سے پاکستان میں پہلی بار ریاست کو تمام بچوں اور بچیوں کے لیے، جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال ہیں مفت اور لازمی تعلیم کا ذمہ اٹھایا گیا۔

اس ترمیم کے بعد پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں میں زبانوں اور ذریعہ تعلیم کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔ صوبوں نے اب تک اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی۔ البتہ 2012ء میں صوبہ خیبر پختون خوا کی اس وقت کی حکومت نے علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے قانون سازی کرکے ایک ایکٹ پاس کرایا، جس کی رُو سے صوبے میں ان علاقائی زبانوں کے فروغ و بقا کے لیے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اور اسکولوں کے نصاب میں صوبوں میں بولی جانی والی زبانوں کی بتدریج تدریس کا انتظام کیا جائے گا۔ اس قانون کی رُو سے ابتدائی دو سالوں (2013 اور 2014 ) کے لیے صوبے میں دیگر چار زبانوں ہندکو، کوہستانی، کھوار اور سرائیکی کو اتبدائی جماعتوں یعنی ادنٰی میں پڑھانے کا اہتمام، ان علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں کیا جائے گا، جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم صوبے میں حکومت بدلنے سے یہ کام سرد مہری اور بے پروائی کا شکار رہا۔ اب تک خیبر پختون خوا میں علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے وہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا، جس کے لیے 2012ء میں قانون سازی کی گئی تھی۔

ان سب تعلیمی پالیسیوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کے مسئلے کو پاکستان میں سماجی، تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زبان کا صرف سیاسی و نظریاتی پہلو غالب رہا۔

اردو کو باوجود وعدوں اور قانون سازی کے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے بھی واضح احکامات دیے، لیکن اردو دفتری یا سرکاری زبان نہ بن سکی۔ کئی دعووں کے باوجود انگریزی کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ انگریزی بدستور پاکستان میں طاقت اور ترقی کی زبان ہے۔ پاکستان میں طاقت کے اہم سرچشموں مسلح افواج، عدلیہ اور افسر شاہی کی زبان انگریزی ہی ہے۔ یہ تمام پالیسیاں اردو اور انگریزی کی اسیر رہیں۔ کچھ ذکر نام نہاد صوبائی زبانوں کا ملتا ہے لیکن پاکستان میں بولی جانے والی باقی ماندہ پینسٹھ زبانوں کا ذکر کہیں موجود نہیں۔ ہمارے تعلیمی پالیسی ساز ایک ان دیکھے خوف کے شکار نظر آئے۔ انھوں نے صوبائی اور دیگر زبانوں کو اس خوف کی وجہ سے نظر انداز کیے رکھا، کہ خدا نخواستہ ان زبانوں کو تسلیم کرنے سے \’قومی وحدت\’ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں 2014ء کو دس زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے بل پر قومی اسمبلی کے اسٹیندنگ کمیٹی کے سیکریٹری صاحب کے تاثرات دل چسپ ہیں، جن میں موصوف مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کی وجہ بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت دینا گردانتے ہیں۔ اس بل کو گزشتہ مہینے ایک بار پھر ملتوی کیا گیا۔

پاکستان ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اس کی بقا و ترقی یہاں کے اس تنوع کو تسلیم کرکے اس کی حفاظت میں ہے نا کہ اسے مٹانے میں۔

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اسے پاکستان کی بیش تر آبادی سمجھتی ہے۔ اس کو اس کی حیثیت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ مگر اردو کے ساتھ دیگر زبانیں بھی پاکستان ہی میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔

جیسا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اور آئین پاکستان بھی کہتا ہے، اردو کو سرکاری زبان بنانے کے اتنظامات کیے جائیں۔ انگریزی زبان بلاشبہ ایک عالمی زبان بن گئی ہے۔ اس کی مانگ اب چین اور جاپان میں بھی بڑھ رہی ہے۔ انگریزی زبان اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور ابلاغ کی زبان بن گئی ہے۔ اس کی اس حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی مادری زبانیں اپنے اندر حکمت، تاریخ اور ثقافت کے خزینے لیے ہووے ہیں۔ ان زبانوں کا معدوم ہونا پاکستان کی لوک ورثہ، دیسی حکمت اور تنوع کا مٹنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اب یہ بات ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں بہت مؤثر اور تیز ہوسکتی ہے۔

پاکستان کو ایک سہ لسانی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ابتدائی (پرائمری) تعلیم کے لیے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ اردو اور انگریزی کو بطور مضمون ہونا چاہیے۔ اگلی جماعتوں میں اردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم ہو اور مادری زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا چاہیے۔ اسی سے پاکستان میں تعلیم بھی بہتر ہوسکتی ہے، امن بھی آسکتا ہے اور ہماری نئی نسل اپنی دیسی روایات و زبانوں سے واقف بھی رہتی ہے۔ اسی طرح ہم اس نوابادیاتی ذہنیت میں بھی تبدیلی لاسکتے ہیں، جو ہماری خوداعتمادی کو بری طرح تباہ کررہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments