یہ قوم بننے کا وقت ہے


وہ آیا، اس دنے دیکھا اور سب پر حاوی آگیا، انسانی آنکھ بھی جسے نہ دیکھ پاتی ہے، اس معمولی سے وائرس نے بلاشرکت غیر پوری دنیا کو اپنے سحر میں نہ صرف جکڑ لیا بلکہ اس کا خوف جھونپڑی سے محلات تک پہنچ گیا۔

دنیا نے بیسویں صدی میں جنتی زیادہ ترقی کی، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، زندگی کی سہولتوں سے لے کر زندہ رہنے اور زندگی بچانے کے لئے کیے جانے والے جتن شاید ہی بنی نوع انسان نے پہلے کبھی کیے ہوں۔ سائنسدان دن رات ایسی تحقیقات میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے انسان کو بیماریوں سمیت بیرونی جسمانی خطرات سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

کسی بھی نئے روگ کا علم شاید بعد میں پتہ چلتا ہے، اس کا تریاق پہلے تیار ہوجاتا ہے۔ جان لیوا، مہلک بیماریاں انسان کا مسلسل پیچھا کرتے رہتی ہیں، میڈیکل سائنس سے وابستہ لوگ انہیں شکست دینے کے لئے نئے سے نئے طبی ہتھیار تیار کرتے رہتے ہیں۔

کوئی قدرتی آفت جیسے زلزلہ، طوفان یا وبائی متعددی مرض کا پھوٹنا انسان کی پریشانی کا باعث بنتا رہا ہے کیونکہ یقینی طور پر ایسے کسی بھی حملے کے نتیجے میں جانیں جاتی ہیں۔ وقتی طور پر خوف بڑھتا ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ کسی خاص خطے براعظم یا چند ممالک کی حد تک ہوتا رہا ہے۔ ایسا شاید تاریخ میں بہت کم ہوا کہ کوئی آفت کچھ اس انداز میں آئی کہ اس وبا نے پوری انسانیت کو اپنی لیپٹ میں لے لیا اور پھر ترقی کے تقاضے پورے کرنے والے ممالک جنہیں کوئی بھی مسئلہ جادوئی انداز میں ہمیشہ نہ صرف حل کرتے بلکہ ان پر قابو پاتے دیکھا جاتا رہا ساتھ ہی ان کی مثالیں کم ترقی یافتہ یا کم وسائل والے غریب ممالک کے لئے ہمیشہ طنز کا باعث بھی بنتے رہے کہ دیکھو وہ کہاں کھڑے ہیں، انہوں نے دوا تیار کرلی، فلاں بحران کا حل نکال لیا۔ ایک بڑے طوفان کا رخ موڑ دیا۔ وہ چاند پر چلے گئے، انہوں نے زمین کی تہہ سے فلاں خزانے نکال لیے، انسان کی ترقی اور مسئلوں کا حل جیسے ان کی میراث بن گئی۔

دنیا میں پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا کہ ایک ایسا وائرس جسے انسانی آنکھ دیکھ بھی نہیں سکتی، اس کا خوف سبھی کو ڈرا گیا۔ کئی ترقی یافتہ ملکوں کی بے بسی جیسے بے نقاب کرگیا۔ پاکستان جیسے ملک اپنی اہلیت، نا اہلی کی بحث میں پڑے ہیں۔ لیکن اٹلی، جرمنی، اسپین، برطانیہ اور سب کا بڑا امریکا خود بھی اس کی شدت کا اندازہ نہیں لگا پا رہا۔

کورونا وائرس کیسے دنیا بھر کے تقریباً سبھی ممالک تک پھیل گیا، ابھی تک دعوے سے کچھ نہیں کہاجاسکتا، چین سے پھیلنے والے بات بھی مصدقہ نہیں، حتیٰ کہ امریکا کی سازش بھی محض سازشی تھیوری ہی کا حصہ ہے، بہرکیف وائرس ہی پھیلا ہے، اسی کے نتیجے میں لوگ جان سے جارہے ہیں، اس کی علامات بھی معمولی ہیں، انسانی سانس اور پھیپھڑوں کو متاثر کرنے کے بعد اکثر جسم کی مدافعتی طاقت کے باعث ختم ہوجاتا ہے لیکن کمزور مدافعتی نظام کے باعث جان چلی جاتی ہے۔

وائرس بلاتخصیص شکار بناتا ہے، کسی بادشاہ، شہزادے سربراہ مملکت اس کے اہل خانہ یا پھر اہل ثروت کا لحاظ نہیں رکھتا، چونکہ اس کا تعلق گندگی سے اتنا زیادہ نہیں مسئلہ صرف سماجی تعلق اور رابطے کا ہے، جس کے لئے طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ فاصلہ اور دوری رکھنا ہی دانشمندی اور احتیاط کا تقاضا ہے۔ اس سب کے لئے بظاہر ایک آسان مگر عملی اعتبار سے تکلیف دہ اور مشکل فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی خود کو باہر کی دنیا سے الگ تھلگ کرکے تنہائی میں چلے جانا پڑتا ہے۔ جب اجمتاعی طور پر ایسا فیصلہ ہو جائے تو پھر کوئی بھی ایک جگہ جمع ہونے والا کام کورونا کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔

پاکستانی عوام خصوصاً مسلمانوں کے لئے کسی ایک بات پر متفق ہونا اور اعتبار کرنا ایک قومی المیہ بن چکا ہے، اس عالمگیر آفت کی شدت کو بھانپنے میں اب بھی دقت پیش آرہی ہے۔ کام کاج اور ہر قسم کو کاروبار بند کرے وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے اثرات بڑے تکلیف دہ ہیں۔ ابھی معلوم نہیں کہاں تک پھیلنا ہے اور اس کی شدت مزید کتنا بڑھے گی۔ لیکن سیاسی، فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم قوم کسی بھی فیصلے پر متفق ہونے کے لئے تیار نہیں، چاہے معاملہ لاک ڈاون کا ہو یا پھر باجماعت، نماز جمعہ پر پابندی ہو۔

ہم اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے ہیں ظاہر ہر کسی کو تکلیف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ لاک ڈاون نہیں کرفیو لگایا جائے تاکہ کوئی نہ نکل سکے۔ ایک مسلسل بحث میڈیا نے شروع کردی ہے۔ ایک مستند رائے جیسا کہ طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ چودہ پندرہ روز تک ہر کسی کو اپنے اپنے گھروں تک محدود رہنا پڑے گا۔ دوسری جانب لاک ڈاون کے باعث مزدور، دیہاڑی دار لوگوں کے معاشی حالات ہیں، جنہیں نہ صرف روزگار کا مسئلہ بلکہ لاک ڈاون کے نتیجے میں نہ وہ اپنے گھروں میں واپس دیہات جاسکتے ہیں اور نہ ہی یہاں رہ کر اپنا پیٹ پال سکتے ہیں۔ ان کی جیب میں کچھ نہیں رہنے کے لئے بھی پریشانی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اعلانات کر دیئے بلکہ میڈیا نے حکومتوں کو ریٹنگ دینا بھی شروع کردی کہ کس حکومت کی کارکردگی کیسی رہی۔

کورونا وائرس نے انسان کو خوف میں مبتلا کردیا مگر انسان اپنے نفع نقصان سے بخوبی واقف ہے۔ اسے یہ سب ایسے ہی لگ رہا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ بیماری معمولی ہے جبکہ مالی نقصان بڑا ہے۔ شاید اسے پورا کرنا مشکل ہوجائے عالمی اداروں نے بھی پیش گوئی کررکھی ہے کہ 20 بڑے ترقی یافتہ ممالک رواں مالی سال کے دوران معاشی بحران سے دوچار ہوں گے۔

ایک طرف میڈیا سمیت سماج کے تمام ذمہ دار طبقہ سے وابستہ افراد عوام کو قرنطینہ الگ تھلگ ہونے کے لئے قائل کررہے ہیں دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھوٹا طبقہ فاقوں پر مجبور ہو رہا ہے، اس کے خاندان والوں تک کھانے پینے کی اشیا پہنچائی جائے۔ کبھی حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا ہے پھر مخیر حضرات اور غیرسرکاری فلاحی تنظیموں کی توجہ دلائی جاتی ہے تاکہ وہ لوگوں کی کسی نہ کسی طور مدد کرسکیں۔

پاکستان کم وسائل میں رہ کر بظاہر بھاگ دوڑ کررہا ہے اس کا موازنہ کسی مغربی ملک سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی سہولتیں اور وسائل پاکستان سے کہیں زیادہ اور موثرانداز میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں ابھی تک چین سے ملنے والی امداد ہی مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار دکھائی دے رہی ہے۔

اس صورتحال، یا کہہ لیں قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لئے محض میڈیا پر قوم کو للکارا جارہا ہے لیکن حقیقت اب بھی مختلف ہے، سیاسی اور مذہبی فرقوں میں بٹی قوم اب بھی متحد نہیں۔ ابھی تو مسلمان یہ ماننے کے لئے بھی پوری طرح سے تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہے، اس سے بھی رجوع کرلیا جائے۔ الٹا باجماعت نماز، اور جمعہ کے اجتماعات پرپابندی کو بھی ایک بڑا مسئلہ بناکر ایک بڑی تعداد نے مسترد کرلیا۔ انہیں شاید لگا کہ کسی کی جانب سے ایسا کرنا انہیں دین کے حلقے سے خارج کرنے کے مترادف ہوجائے گا۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں حالت جنگ، یا جنگی صورتحال میں کوئی بھی ایسا سخت فیصلہ لینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔

حکومتیں کیا کررہی ہیں، اس پر بحث یا تنقید سے پہلے اس بات کا تعین کرلینا چاہیے کہ ایسی بیماری جس سے بچنے میں ہر فرد نے ذاتی طور پر حصہ ڈالنا ہے، اس کی احتیاط کسی دوسرے فرد یا حکومت کی ذمہ داری یا ڈیوٹی نہیں، ایک معمولی سا ماسک پہننا، اپنے ہاتھوں کو صاف رکھنا اور پھر آپس میں فاصلہ رکھنا ہے، اس میں کسی طبی آلے یا مہنگی دوا یا سامان کی ضرورت نہیں، علاج ابھی باقاعدہ کوئی نہیں جس کے بارے کہاجائے کہ دوا مل نہیں رہی۔

پھر ہم سوچ کیا رہے ہیں۔ کم ازکم جنہیں اپنے گھروں میں رہنے کی سہولت ہے وہ اس پابندی پر کاربند رہیں۔ جہاں تک مزدور دیہاڑی داروں کے کھانے پینے یا پھر کہیں رہائش کا معاملہ ہے اسے قوم کی حیثیت سے قریبی کسی بھی صاحب ثروت شخص کی ضرورت نہیں بلکہ کوئی بھی ایک ضرورت مند مستحق کے کھانے کی ذمہ داری لے سکتا ہے۔

مگر اس معمولی کام کے لئے ایک قوم کی حیثیت سے سوچنا ہوگا کیا ہم واقعی سب مشکل میں ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے، کیا یہ تعاون اور مدد وقت کی اہم ضرورت نہیں بن چکا ہمیں ایسے میں غافل نہیں ہونا۔ بلکہ اپنی زندگی بچانے کے لئے جہاں بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہیں اس کے ساتھ ہی اپنے اردگرد نگاہ ڈالا کر کسی ایک کی مدد کرنا ہے۔ قومیں ایسے ہی بنتی ہیں، اپنی ذات سے اوپر ہوکر سوچنا پڑتا ہے قومیں ترقی بھی اسی سوچ کے نتیجے میں بنتی ہیں وگرنہ اپنی فکر کرنے والے جہاں بھی گروہ کی صورت میں رہیں وہ کبھی قوم نہیں بن سکتے ایک بھیڑ ہی رہیں گے۔

ایسی بھیڑ ہمیشہ جانوروں کے ریوڑ سے بھی بدتر زندگی گزارتی ہے جسے ذات سے ہٹ کر کسی کی پروا نہ ہو۔ وہ قوم کہلا بھی لیں مگر دوسری ترقی یافتہ قوموں سے کندھا نہیں ملا پاتیں۔ ان کی آئندہ کی زندگی بھی غیریقینی اور بے بسی کی کھلی تصویر ہوتی ہے۔

ہم شاید اتنی خراب صورتحال میں نہیں، صرف تھوڑی سے یاددہانی اور راستہ دکھانے کی ضرورت ہے، پھر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ ہی لیتے ہیں۔ ایک بات طے شدہ ہے کوئی بھی مشکل ایک کشتی کی مانند ہوتی ہے، اور کنارے تک پہنچا دیتی ہے۔ اگلا سفر کشتی کے بغیر ہی کرنا ہوتا ہے

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments