کرسی سلامت رہے


جناب کی کرسی سلامت رہے۔۔۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ غیر معمولی حالات اور اوپر سے غیر معمولی وائرس کا سامنا، ان حالات میں محض معمولی اقدامات کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

مانا کہ یہ وقت تنقید کا نہیں مگر جب بات حلق تک آ پہنچے اور جاں بلب ہو تو جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں چلانا پڑتے ہیں۔ اس وقت حالات کا تقاضا فقط اتنا ہی ہے کہ عملاً چاہے کچھ ہو یا نہ ہو مگر کم از کم معاملات پر غیر سنجیدگی کا شائبہ بھی نہ ہو۔

کورونا کی پاکستان آمد کے بعد سے اب تک وزیراعظم کا تیسرا ہفتہ وار خطاب قوم سُن چکی ہے۔ خطاب کے اختتام پر عوام تا حال فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اور کس حد تک نہیں؟ وزیراعظم کے بیانات الگ اور اقدامات الگ عوام کو کنفیوژن میں مبتلا کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے دوسرے خطاب میں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا۔ اگلے چند ہی گھنٹوں میں پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا اور پھر اگلی ہی شام ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں مکمل لاک ڈاؤن کی تفصیلات بھی بتا دیں۔ نجانے کون کہاں فیصلے کر رہا ہے۔۔۔ مگر خیر ہو کرسی کی۔۔۔ کرسی سلامت رہے۔

عزیز ہم وطنو!ملک اس وقت ایک ہیجانی کیفیت میں ہے۔ غربت، بے روزگاری اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا مملکت پاکستان کو چند ایک اچھے فیصلوں اور اُمید کی ضرورت ہے۔

یہ عجب صورتحال ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں حکمران جماعت سے سنجیدگی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور حکمران جماعت جیسے کچھ سُنا ہی نہیں۔ اپوزیشن رہنما منصوبے پر منصوبے پیش کر رہے ہیں اور وزیراعظم تقریروں پر تقریر۔ سندھ میں بہتر اقدامات کی قدردانی کیا ہوتی، چین سے ماسک منگوانے پر سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا لیا گیا۔

ابھی گذشتہ ہفتے ایک قومی کانفرنس بلائی گئی، اللہ اللہ کر کے جیسے قوم کی سُن لی گئی۔ اُمید کی گئی کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہی سہی لیکن جناب وزیراعظم پاکستان کے وزیراعظم بنتے ہوئے قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو برداشت کر لیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

بقول ایک سینئر وزیر، وزیراعظم کے شیڈول میں یہ قومی کانفرنس تو تھی ہی نہیں، دیگر کچھ اہم معمولات تھے سو وہ چلے گئے۔

واضح رہے کہ اس سے صرف ایک روز قبل ہی وزیراعظم نے نہ صرف ملک کے ممتاز صحافیوں کے ساتھ کئی گھنٹے بیٹھک کی بلکہ اپوزیشن سے زیادہ سخت سوالات کے جوابات بھی دیے۔

اب جبکہ لاک ڈاؤن میں تاخیر کے بھیانک نتائج پنجاب میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے لاک ڈاؤن کے نقصانات قوم کے سامنے گنوائے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح بھارتی وزیراعظم کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے قوم سے معافی مانگنا پڑی۔

کاش کوئی اُن کو بتاتا یا پرچی پر ہی لکھ دیتا کہ معافی لاک ڈاؤن بڑھانے اور غریبوں کو اٹھنے والی پریشانی پر مانگنا پڑی نہ کہ اصل معنوں میں معافی طلب کی گئی۔جناب وزیراعظم، کرسی سلامت رہے، آپ نے کورونا سے جن دو طریقوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے اُن میں سر فہرست ایمان ہے۔

یہ پتہ کون چلائے کہ کس کا ایمان کتنا پختہ ہے اور کورونا سے نمٹنے کے لیے کتنا کارآمد۔۔ اس کے لیے بھی اگر کوئی فورس بنا دی جاتی تو بہتر ہوتا۔۔۔ دوسرے بتائے گئے طریقے کے مطابق ٹائیگر فورس تشکیل دی جائے گی جو سرکاری مشینری سے بالا ہی بالا کام کرے گی۔ گویا ریاست ایک طرف اور ٹائیگر فورس ایک طرف۔

خدا جانے یہ ٹائیگر فورس عوام سے کس طرح نمٹے گی، شاید اُسی طرح جیسے سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں سے نمٹا جاتا ہے؟

ترجیحات بھی کمال ہیں۔ ادھر کورونا پاکستان پہنچا اُدھر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان کو نیب نے دھر لیا۔ خیر نیب کا حکومت سے کیا تعلق؟ اگر ہوتا تو وزیراعظم صحافیوں کو جواب میں فرما دیتے کہ نیب ان کے ماتحت ہر گز نہیں۔ مگر اُن کا گریز نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دے گیا۔

ہونے کو تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ غیر معمولی حالات کے پیش نظر بزرگ قیدیوں کو چھوٹ دی جاتی، پچاس سال سے اوپر کے قیدیوں جن میں خورشید شاہ، میر شکیل الرحمن بھی آتے ہیں انھیں رہا کیا جاتا مگر ہوا یہ کہ شاہد خاقان عباسی کے نئے وارنٹ جاری ہو چکے اور شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ایک بار پھر طلب کر لیا گیا ہے۔

لگتا ہے کہ اگلے چھ ماہ جہاں معاشی اعتبار سے انتہائی مشکل ہوں گے وہیں پر ایک طرف سڑکوں پر کورونا دھمال ڈالے گا اور دوسری طرف بھوکے، ننگے عوام۔۔۔ ہوسکتا ہے اب کی بار اپوزیشن بھی عوام کے ساتھ ہو اور کون کون ساتھ ہو سکتا ہے۔۔۔؟ خیر ہو آپ کی، کرسی سلامت رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).