پوسٹ کورونا دنیا کیسی ہو گی؟


یہ وہ سوال ہے جو گزشتہ ایک ہفتہ سے میں سن رہا ہوں۔ یار من جمشید رضوانی سمجھتے ہیں کہ کورونا سے بعد کی دنیا کورونا سے پہلے کی دنیا سے مکمل طور پر مختلف ہو گی … میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہو گا۔

دنیا کا موجودہ نظام چند معاشی معاشرتی اور سیاسی حقائق (realities) اور اصولوں پر مبنی ہے …. وہ تمام چیزیں جو دور جدید کی سیاست معیشت اور معاشرت کو بدلتی ہیں یا انہیں قائم کرتی ہیں انہیں ہم اکنامک سوشل اور پولیٹیکل goods (یعنی عناصر ) کہتے ہیں ان میں سے کوئی چیز سٹرکچرل بحران کا سامنا نہیں کر رہی اور نہ ہی بدلنے والی ہے …. یہاں تک کہ گلوبلائزیشن کو بھی کچھ نہیں ہونے والا …. یہ تصور کہ اگر شہری گلوبلائزیشن نہ ہوتی جس کے تحت ساری دنیا کے لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک بآسانی سفر کرتے ہیں تو یہ وبا عالمی نہ ہوتی، کو اکنامک گلوبلائزیشن رد کرتی ہے کہ اگر اشیا و خدمات کی گلوبلائزیشن نہ ہوتی تو جن شہروں میں لاک ڈاون ہے وہاں اشیا و خدمات کی کمیابی کے تحت لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے …. آج یو کے ڈیپارٹمنٹل سٹور اشیاء و خدمات سے بھرے پڑے ہیں تو یہ عالمی سپلائی چین کے سبب ہے، اگر ادویات و میڈیکل آلات ایک ملک سے دوسرے ملک بآسانی جا رہے ہیں تو اس کا سبب بھی گلوبلائزیشن ہے …

مستقبل کی پیش گوئی کے لئے لازمی ہے کہ ماضی کا گہرا مطالعہ اور شعور ہو …. انیس سو اٹھارہ سے لے کر انیس سو بیس تک کا دور ہسپانوی انفلوئنزا کا دور ہے اس زکام نے تقریبا پچاس کروڑ افراد کو متاثر کیا اور پانچ سے لے کر دس کروڑ افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے ..صرف امریکہ میں چھ لاکھ پچہتر ہزار افراد ہلاک ہوئے ….. یہ وہ دور ہے جب جنگ عظیم اول اپنی تباہ کاریوں سمیت ختم ہو چکی تھی اور اس وبا کے خاتمے کے بعد گریٹ ڈپریشن (عظیم معاشی بحران) شروع ہوا تھا، یاد رہے کہ اس وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ فنانشل سسٹم میں سٹرکچرل مسائل کی وجہ سے…. آپ کا سوشل سائنس کے کسی بھی شعبے سے اگر کوئی تعلق ہے تو بتائیں کہ ہم ورلڈ وار ون ہو یا دوم اور یا پھر گریٹ ڈپریشن، ان کے سیاسی و سماجی اور سیاسی اثرات کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے دنیا بدلنے میں اہم کردار ادا کیا …. کیا آپ ہسپانوی انفلوئنزا، جس کی تباہ کاریاں موجودہ وبا سے سینکڑوں گنا زیادہ تھیں، کے سیاسی سماجی اور معاشی اثرات کو کبھی زیر بحث بھی لائے ہیں ؟ اس کا کوئی نمایاں اثر بھی تھا؟

آج ترقی یافتہ مغربی دنیا میں معاشی سرگرمیاں محدود ہیں، مگر ان کے اکنامک اور فنانشل سسٹم میں کوئی نمایاں سٹرکچرل مسئلہ نہیں اس لئے جوں ہی معاشی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی مارکیٹ میں ایک دم تیزی آئے گی اور ریکوری کا سفر اس ساری کاسٹ کو cover کر جائے گا جو اب ان ممالک میں ادا کی جا رہی ہے۔

میں اس عالمی وبا کے اثرات کا مکمل طور پر منکر نہیں … یہ اپنے دائرہ کار میں آنے والی چیزیں بدلے گی جیسے :

۔ امیگریشن کے قوانین کم مدتی (short run ) پیمانے پر نسبتا سخت ہوں گے مگر طویل مدتی (long run ) پیمانے پر اپنے پہلے مقام پر آ جائیں گے ….

۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO ) اپنے آپریشنز میں زیادہ گلوبلائزڈ ہو گی اور دنیا میں پھیلنے والی کسی بھی وبا کو عالمی طور پر سنجیدہ لیا جائے گا۔ حادثات سے نمٹنے والے منصوبوں میں زلزلہ، سیلاب کی طرح وباؤں کو بھی انتہائی سنجیدہ لیا جائے گا اور ان سے نمٹنے کی پہلے سے ہی پلاننگ ہو گی۔

۔ ہیلتھ کیئر قوانین میں اصلاحات ہوں گی اور میڈیکل ریسرچ کی فنڈنگ میں اضافہ ہو گا۔ یہاں یو کے میں یہ سوال یہاں کے پروفیشنل اٹھانے لگے ہیں کہ یو کے کا ہیلتھ کیئر گورنمنٹ فنڈڈ ہے جبکہ امریکہ کا اس سے مختلف ہے جو پرائیویٹ اکانومی کے اصولوں پر ہے …آخر امریکہ میں ہلاکتیں کل مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے کم کیوں ہیں اور برطانیہ میں کیوں زیادہ ہیں؟ جرمنی اور یو کے میں فرق کیوں ہے؟ ایسے تحقیقی سوالات و جوابات ہیلتھ کیئر کے نظام کو بدلنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

۔ یہ عالمی وبا غریب اور ترقی پزیر ممالک کے لئے سب سے زیادہ چیلنجنگ ہے، اسے پولیٹیکل اکانومی کی زبان میں ہم credibility  ٹیسٹ کہہ سکتے ہیں … کہ آیا ان ممالک کی حکومتیں عوام کی خبرگیری اور ان کے مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھتی ہیں یا پیچھے بیٹھ جاتی ہیں؟ مغربی ممالک کی حکومتیں آگے بڑھی ہیں اور انہوں نے شہریوں کو سہولیات اور مراعات دی ہیں، لوگ گھروں میں ہیں مگر انہیں معاشی اسباب مہیا ہیں اور انہیں حکومت ٹھیک ٹھاک مالی مدد فراہم کر رہی ہے… انہوں نے اپنی credibility منوالی ہے…. کیا ایسا پاکستان اور ایران جیسے غریب ممالک کے کیس میں بھی ہے؟ ان ممالک میں حکومت آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹ گئی ہے… میو ہسپتال واقعہ اور عبدالستار ایدھی کے بیٹے کے الفاظ کہ ہم پنجاب میں روزانہ سات سے آٹھ کورونا سے مشتبہ لاشیں اٹھا رہے ہیں، پاکستان میں حکومت کی کریڈٹیبلٹی کمزور کر رہے ہیں، حکومت پر عوام کا کمزور اعتماد سیاسی انقلابات اور انارکی کا سبب بنتا ہے …

قوی امکان ہے کہ یہ بحران جون تک ختم ہو جائے گا اور دنیا کی اکثریت آبادی اس کے خلاف امیون (immune ) ہو جائے گی۔ اس وبا کے سبب نہ عالمی ورلڈ آرڈر بدلنے لگا ہے اور نہ ہی مغربی اقوام کے سیاسی سماجی اور معاشی نظام کو کوئی خطرہ ہے ….. چند ثانوی تبدیلیاں ناگزیر ہیں جن میں اہم حکومت اور عوام کے درمیان تعلق ہے، جسے ہم credibility ٹیسٹ کہہ سکتے ہیں۔ ہر متاثرہ ملک کے شہری اپنی اپنی حکومتوں کی آزمائش کر رہے ہیں جو حکومت کامیاب رہی، وہ چلے گی اور نہ کامیاب ہوئی تو سیاسی ڈھانچہ شہریوں کی گرفت و تنقید میں آئے گا۔ ہیلتھ کیئر قوانین اور ادویات کی تحقیقات سمیت وباؤں سے نمٹنے کے انتظامات میں نئی پیش رفت ہوں گی۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments