کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا؟


میں نے آج کرونا کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھنا کیونکہ اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس ایکسپرٹ ہوئی پڑی ہے۔ بچے بچے کو قرنطینہ کا پتہ ہے کوئی عمل کرنے نہ کرے۔ ویسے بھی یہ تو صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ کسی ایک کے کیے گئے اعمال کی سزا بہت سوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اب کون کس کے کیے کیا بھگت رہا ہے۔ ابھی تک اس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ قیاس آرائیوں اور تکوں کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے دیسی علاج اور ٹوٹکے میسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جملہ مجھے روز اپنی بیٹی سے بھی سننا پڑتا ہے کہ اگر ایک چائینیز چمگادڑ نہ کھاتا تو ساری دنیا اس وائرس سے نہ متاثر ہوتی اور ہم گھر پہ یوں بور نہ ہوتے۔

پتہ نہیں مجھے پیراڈائیز لاسٹ والے شیطان کا خیال کیوں آجاتا ہے کہ اگر وہ اتنا عبادت گزار خدا کی بات مان لیتا تو آج ہم سارے اس کے بدلے کی آگ سے محفوظ ہوتے۔ پتہ نہیں اس خیال کی تان اب کدھر جاکے ٹوٹے۔ ماننے نہ ماننے، منوانے اور نہ منوائے جانے۔ خیر ایم اے انگریزی میں پیراڈائیز لاسٹ پڑھتے ہوئے ہم نے کئی تبصروں اور تجزیوں میں شیطان کو ہیرو بھی ثابت کیا۔ کیا فلک شگاف ڈائیلاگ تھے اس کے۔ شاعر کا کمال تھا کہ اس نے کس طرح شیطان کو ہیرو کا روپ دیاکہ ایک وقت پہ شیطان واقعی سچا لگنے لگ گیا تھا۔

ہمارا المیہ ہے کہ آج کے معاشرے میں کسی بھی شیطان کو ہیرو کا روپ دینا مشکل نہیں۔ ہر شیطان کے مختلف لیولز ہیں۔ کون کس لیول تک جاتا ہے اس کا اندازہ اس کی طاقت سے لگایا جاسکتا ہے اور دوسری طرف متاثر ہونے والے وہی عام انسان روئے زمین پر بے وجہ رینگتے ہوئے۔ کے نہ آنے کی کوئی وجہ ہوتی ہے اور نہ ہی بھوک، افلاس اور بیماری اور بربادی سے مر جانے کی۔

دنیا کی آدھے سے زائد آبادی شاید انہی تکلیفوں کو اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھائے جئے چلی جارہی ہے مگر کوئی ان کی اذیت پہ کان بھی نہیں دھرتا۔ بحیثیت ایک عام انسان خود کو بہت بے بس پاتی ہوں جب اپنے اردگرد کی تکلیف کا کوئی سدِباب ہوتا نظر نہیں آتا۔

کبھی کبھی یہ بے بسی اتنی شدید قنوطیت اختیار کرلیتی ہے کہ بلاوجہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد مجھے جزوی طور پر پاگل لگتے ہیں۔ حالانکہ اتنی قنوطیت کے ساتھ لوگ مجھ جیسے اوور تھنکرز کو تو یقیناً آدھے پاگل ہی سمجھتے ہوں گے جن کے پورے ہوجانے میں بس تھوڑی ہی کسر باقی ہے۔ کوئی اگر مجھے اپنا کوئی مسئلہ بتا دے تو میری نیت ہوتی ہے کہ میں آؤٹ آف دا وے جا کر بھی اس کی ہیلپ کروں شاید کچھ لوگوں کو یہ پاگل پن لگے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہم انفرادی طور پر کسی ایک فرد کا مسئلہ تک حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو پھر ہم پوری دنیا کے مسائل حل ہوجانے کے خواب کیسے دیکھ لیتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ہمارے زمینی ہیروز جن کے سر پہ ہم نے دنیا بدل ڈالنے کا سہرا سجا رکھا ہے یہ بھی ہماری طرح کے اوسط دماغ کے ہی حامل ہیں کوئی سپیشل دماغی سیٹنگز کے ساتھ زمین پر نہیں اتارے گئے۔

ہم چاہتے ہیں ہر مشکل کام کوئی دوسرا کرے ہم صرف وہ کام کریں جس میں سب اچھا اچھا ہو اور جس کا انجام بہت اچھا ہو اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ حقیقی زندگی میں نہ تو ہر کسی کے ساتھ سب اچھا اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی انجام اچھا۔ اور ہم اگر کچھ اچھا کرنے کا سوچ لیں تو کتنے عوامل ایسے ہو جاتے ہیں کہ اس اچھے کو اپنے انجام تک پہنچانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اور یہاں پر اپنا آپ کتنا بے بس لگتا ہے کچھ وقت کے لئے تو دنیا سے کٹ جانے کو دل کرتا ہے مگر کیا کیا جائے۔ یہ بھی ممکن نہیں۔

پاکستان کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو مجھے صرف ایک تکلیف کَھلتی ہے کہ آج بھی غریب غربت سے مر رہا ہے اور کتنا طبقہ ایسا ہے جو مناسب دوائیں اور علاج معالجے کے بغیر مر رہا ہے۔ پاکستان میں کتنے ایسے ڈاکٹرز ہیں جو اپنے قیمتی گھنٹوں میں سے چند نکال کر ضرورت مند لوگوں کو فری طبی سہولیات دینے پر قادر ہیں لیکن وہ شام کو اپنا پرائیویٹ کلینک کھول کر شام شام میں کتنے ہزار کما کے گھر لے جاتے ہیں کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ ایک ہفتے میں چند گھنٹے ضرورت مند مریضوں کے لئے وقف کر دیں۔ کتنے لوگ پرائیویٹ سکولز کا کاروبار کھولے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی ہر گلی ہر نکڑ پر سکول ہے۔ کیا کوئی گلیوں میں مارے مارے پھرنے والے بچوں کو کوئی تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کے قابل نہیں۔

آج جب دنیا کرونا جیسے وائرس سے مرنے لگی ہے تو شیطانی ذہن والے کاروباری لوگوں نے اپنی اشیا کی قیمتوں کو آسمان پر چڑھا دیا ہے کیا پولیس کے نیک افسران کا فرض نہیں بنتا کہ ضرورت کی ان اشیا کی بلیک مارکیٹنگ کو روکاجائے۔ ایک جگہ لوگ آٹے کے تھیلے بانٹنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف آٹا بلیک ہوئے جارہا ہے۔ یہ آٹا نہیں، نیتیں ہیں جو بلیک ہیں۔ سیاہ کالی۔

تسبیح پھری تے دل نہیں پھریا، کیہ لینا تسبیح پھڑ کے ہُو

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا، کیہ لینا علم نوں پڑھ کے ہُو

چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا، کیہ لینا چلیاں وڑ کے ہُو

جاگ بناں ددھ جمدے ناہیں باہو، بھانویں لال ہوون کڑھ کڑھ کے ہُو

حضرت سلطان باہو

بحیثیتِ عام انسان زیادہ تر لوگ اپنے فرض کو اپنی ذات اور گھر سے آگے نہیں لے کے جاتے۔ بھلاہو انسانیت دوست لوگوں کا جو دن رات انسانیت کی بھلائی کے لئے اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب تک ہم خود کو خود نہیں بدلیں گے کوئی نہیں آئے گا ہمارے حالات بدلنے۔ ہمارے حکمران تو ہیں ہی بے حس مگر کیا ہماری عوام انفرادی طور پر خود اس معاشرے کے ساتھ مخلص ہے؟ کیا ہمیں ان عوامل پہ نہیں سوچنا نہیں جن کو بروئے کار لاکر ہم اس معاشرے کو کسی حد تک بدلنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

جیسے آج کرونا کے زیرِ اثر اپنی عادات بدلی ہیں ایسی ہی مخلص کوششیں اگر روزانہ کی تعداد میں کی جائیں تو مجھے یقین ہے بہت سارے لوگ بھوک سے نہیں مریں گے۔ بہت سارے بچے گلیوں میں مارے مارے پھرنے کی بجائے تعلیم جیسی سہولت سے فائدہ اٹھاسکیں گے کہ پاکستان میں تعلیم ابھی بھی ایک سہولت ہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ بہت سارے مریض اپنی بیماری کے ہاتھوں نہیں مریں گے۔ اتنا مثبت تو میں بھی سوچ ہی سکتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments