علما اپنی معقولیت کھو چکے


ہزاروں مساجد، لاکھوں علماء، دانشوروں اور مفتیوں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہو۔ مملکت کا بندوبست اسلامی کہلائے۔ کفر کے فتوے دن رات ارزاں ہوں۔ پر ایک حقیقی ضرورت کے لئے، بقائے انسانی کی خاطر اور زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اتنا مایوس ہو جائے کہ اسے اپنے علماء سے یہ امید ہی باقی نہ رہے کہ یہ کوئی معقولیت کی بات کریں گے، اسے فتویٰ لینے الازہر کے در پر جانا پڑے۔

چلیں الازہر والوں نے ہی بندے کی لاج رکھ لی۔ فتویٰ ضرورت اور حالات کے مطابق دے دیا۔ صدر مملکت نے خوشی خوشی اعلان کردیا کہ چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ پر اپنے مفتی پھر بھی اڑ گئے۔ انہوں نے کہا ہو سکتا نہیں کہ ہم اپنے اپنے مریدوں کو اپنے سے دور ہونے دیں۔ محبت جو بہت ہوئی۔ درد اور فکر بھی بہت ہے۔ پر پتا نہیں فکر قوم کی ہے کہ اپنی دکان کی۔ اور اڑیں بھی کیوں نا یہاں ہر ایک کا اسلام الگ ہر ایک کا فتویٰ الگ۔

مسجد الگ۔ محراب منبر الگ۔ تحفظات مفادات بھی الگ الگ۔ پر اسلام تو ایک ہی تھا۔ قرآن بھی ایک ہی ہے۔ کعبہ بھی ایک۔ قبلہ بھی ایک۔ منہ بھی سب کے کعبے شریف ول۔ پر نیت اپنی اپنی۔ مسیت اپنی اپنی۔ سعودیوں کا احترام ہمیشہ پاکستانی علما نے قائم رکھنے کی کوشش کی۔ عوام بھی انہیں چاہتے بہت ہیں۔ وہاں تو کوئی حیل و حجت نہ ہوئی۔ ایک شاہی فرمان جاری ہوا اور معاملہ سیٹ۔ پر اپنے والے تو کعبے والوں کی ماننے سے بھی انکاری ہو گئے جن کو دیکھ دیکھ کر برسوں سے روزے عیدیں منا رہے تھے۔

ایک عالمی وبا پھیل گئی۔ حقیقی ضرورت اجتہاد کی پڑ گئی۔ بلکہ اجتہاد کی ضرورت ہی کیا تھی۔ حکم موجود، سنت موجود، اقوال موجود۔ عمل کیا گیا کروایا گیا۔ بیماری، سردی، بارش کی وجہ سے حکم دیا کہ مسجد آنے کی ضرورت نہیں۔ گھر میں عبادات بجا لاؤ۔ جمعہ بھی چھوڑ سکتے ہو۔ فرائض میں بھی حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے۔ پر وہ مفتی، مولوی کیا جو سیدھی طرح معاملہ حل ہونے دے۔ اپنی اہمیت نہ جتائے۔

وبا پھوٹی تو دنیا کے بیشتر ممالک میں اجتماعات پر فوری پابندی لگی۔ پر جہاں بحث مذہبی و سیاسی مفتیوں کے ہتھ چڑھی وہاں معاملہ لٹک گیا۔ وہاں اب خود بھی لٹک رہے ہیں اور عوام کو بھی لٹکا بیٹھے ہیں۔ نہ دین ہاتھ آیا نہ معاش۔ بندے بھی مروا رہے ہیں۔

عرب ممالک نے اسی قرآن و سنت کو دیکھ پڑھ کے فتوے لئے اور مساجد بند کر دیں۔ صدیوں سے جاری طواف کعبہ بھی روک دیا گیا۔ اس میں بھی یار لوگوں نے توجیہات نکال لیں کہ یہ کورونا کا شاخسانہ نہیں بلکہ کسی بغاوت کی بو کو دفنانے کے لئے کیا گیا سیاسی فیصلہ ہے۔

پاکستان کے پڑھے لکھے جبہ دار مفتیوں سے تو افریقہ کے پینڈو مفتی اور پادری سیانے نکلے۔ غانا، برکینا فاسو، ساؤتھ افریقہ، کینیا، مشرقی و مغربی شمالی و جنوبی افریقہ اور دیگر کئی ممالک نے فوری طور پر بلا چوں و چرا حالات کی نزاکت کو سمجھا۔ حکومت وقت کے مشورے پر عمل کیا۔ یاد رہے کہ بیشتر ممالک میں حکومت نے حکماً عبادت گاہیں بند نہیں کیں بلکہ مذہبی لیڈروں کو خود موقع دیا۔ پر معلوم نہیں مفتی منیب، تقی عثمانی اور دیگر پر کون سا صحیفہ اترتا ہے، آتے ہیں (کس) غیب سے یہ مضامین خیال میں، کہ جو بات سارے عالم اسلام کو سمجھ آ گئی ان کی سمجھ سے کوسوں دور ہے۔

ہمارے پڑھے لکھے مفتی ان افریقن مفتیوں کو پلے باندھیں یا نہ پر وہ ان پر سبقت لے گئے۔ انہوں نے بھی اسی قرآن و سنت سے فتاویٰ لئے اور مساجد کی عارضی بندش کا اعلان کر دیا۔ صرف اک مثال برکینا فاسو کی جو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ اس میں کرونا کا پہلا کیس 9 مارچ کو کنفرم ہوا۔ 11 مارچ کو حکومتی وزراء نے پریس کانفرنس کی۔ تمام سرکاری غیر سرکاری تقریبات کینسل کیں۔ لیکن عبادت گاہوں کو بند کیا نہ کہا بند کریں۔

عبادت گاہوں کو بند کرنے کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال پر وزیر موصوف نے صرف یہ کہا کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر مگر ذمہ داری سے فیصلہ ہو گیا۔ کوئی شور اٹھا نہ کنفیوژن ہوئی۔ مفتی، پادری مسلم عیسائی متفق ہو گئے کہ لوگوں کو زندہ رکھو۔ زندہ ہوں گے تو مسجد مندر چرچ میں پھر آجائیں گے۔ عبادت گاہیں پھر آباد ہو جائیں گی۔ نہیں تو یہ کرونے والے ہمیں بھی پرو جائیں گے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہوا کہ پہلے اکیلا اکیلا مفتی ٹی وی پر اپنا اپنابیان دے بیٹھا کہ نماز باجماعت موقوف نہیں ہو سکتی۔ اب اس میں پھنس گیا ہے۔ پہلے بیان سے مکرے کیسے۔ اب تو سافٹ ویئر ہی تبدیل ہو تو بات بنے۔ ادھر صدر صاحب ان سے مایوس ہو کر الازہر چلے گئے تو یہ اور بپھر ے۔ برا مان گئے کہا کہ ہماری کوئی اوقات ہی نہیں فتویٰ لینے باہر چلے گئے۔ بھئی اوقات تو آپ دکھا چکے۔ اب جلد یا بدیر حکومت کچھ اور دکھانے پر مجبور ہونے والی ہے۔ لیکن وقت پہلے ہی بہت سرک چکا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔

مفتی منیب جو دو ہفتے پہلے بڑے طمطراق سے کہ رہے تھے کہ کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اب خود بول رہے ہیں کہ بیمار کمزور اور بچے گھر رہیں۔ پر یہ کون سمجھائے مفتی صاحب کو کہ پھڈا ہی یہ ہے کہ پتا ہی نہیں کون بیمار ہے۔ اگلے دنوں میں یہ فتویٰ بھی تبدیل ہونے والا ہے۔ اور پنجابی مثال سو فیصد صادق آنے والی ہے۔ اس وقت تک یہ مفتی پیاز بھی کھا جائیں گے اور جوتے تو عوام خود لے آئیں گے۔ پر بندے بھی مروا بیٹھیں گے۔

پاکستان کا مولوی اڑ گیا ہے۔ جو بات حالات کا ادراک کیے بغیر کر دی تھی اس کا پہرہ دے رہا ہے۔ دنیا ساری ایک طرف اور ہمارے مفتیوں کا ٹولہ ایک طرف۔ یہ کسی صورت اپنی دکان داری بند کرنے کو آمادہ نہیں۔ آج دنیا کا میڈیا یہ خبریں دینے پر مجبور ہے کہ پاکستانی مفتی اڑ گئے ہیں۔ بات وہ کرتے ہیں جو نہ معقول ہے نہ منقول۔ اورساتھ فرماتے ہیں جناب ساجد میر صاحب کہ میرے مذہب کو تنگ نظر نہ کہو۔

https://www۔voanews۔com/science۔health/coronavirus۔outbreak/pakistani۔clerics۔insist۔keeping۔mosques۔open

سنیٹر صاحب مذہب تو تنگ نظر نہیں تھا اور نہ ہے۔ پر تنگ نظروں کے ہتھے ضرورچڑھ گیاہے۔ لگے ہاتھ یہ بھی فرما دیجئے کہ ان خلاف انسانیت فتاویٰ کی پٹاری کھلنے کے بعد لوگ مذہب پر اعتماد کریں گے یا نشانے پر رکھیں گے۔ مفتیان کرام اور سنیٹر صاحب تنگ نظر تو چھوٹا لفظ ہے تاریخ آپ کو ایسے القابات سے نوازنے والی ہے کہ جو آج لکھے نہیں جا سکتے۔

ایک تجویز یہ بھی ہوسکتی ہے کہ میڈیا متفقہ طور پر ایک اعلان کر دے کہ ان علماء کے گزشتہ دنوں کے بیان کبھی نشر نہ کیے جائیں گے بس ایک واری پھر سوچ سمجھ کر عوام کی زندگیوں کی خاطر معروضی حالات کے پیش نظر کوئی ڈھنگ کا فتویٰ دے دیں۔ یہ ترلہ کر لیں شاید بات بن جائے۔

جب عوام کو ادراک ہو گا کہ بیماری جان لیوا ہے اور پھیلتی اکٹھے ہونے اور جپھیاں ڈالنے سے زیادہ ہے۔ تو کون مفتی کے فتوے کی پرواہ کرے گا۔ سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے پھر جوتے کی نوک پر آجائیں گے۔ حالات کے مطابق بروقت فیصلہ نہ کرکے اور اپنی ضد پر اڑ ے ہوئے علماء اپنی ساکھ اور معقولیت کھو ہی چکے ہیں ساتھ میں مذہب کو بھی بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

اور ہاں چودھویں صدی عیسوی میں بلیک ڈیتھ نامی وبا کے وقت بھی کچھ ایسے ہی مفتی عیسائیت کو میسر تھے۔ وہ بھی اڑ گئے تھے۔ لوگ تو قربان ہو گئے پر چرچ معقولیت کے درجے سے گر گیا اور ہمیشہ کے لئے ناقابل اعتبار ٹھرا۔

فاعتبروا یا اولی الابصار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments