کچھ مزید بات ریڈ کلف ایوارڈ اور گورداس پور کی ….


\"????????????????????????????????????\"مغربی اور مشرقی پنجاب میں فسادات روکنے میں اپنی دانستہ یا نا دانستہ ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ کے ضمن میں ناانصافیوں کی کہانی گھڑی گئی۔ اگرچہ ریڈ کلف ایوارڈ میں ان گنت غلطیاں ہوئیں لیکن اس امر کا ثبوت ملنا مشکل ہے کہ یہ غلطیاں دانستہ طور پر کسی خاص فرقے کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئیں۔ دراصل جہاں تک تقسیم کے منصوبے اور اس پر عمل درآمد میں غلطیوں کا تعلق ہے تو اس پر ہندوستانی رہنماﺅں کا اجارہ نہیں تھا۔ دو سو برس تک ہندوستان پر نسبتاً عملیت پسندی اور عمدہ انتظامی اہلیت کے ساتھ حکومت کرنے والے برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی تباہ حال معیشت، ہندوستانی جدوجہد آزادی کی بڑھتی ہوئی قوت اور بدلتی ہوئی دنیا میں نو آبادیاتی نمونے کے لیے کوئی جگہ نہ پاتے ہوئے جب ہندوستان سے مراجعت کا فیصلہ کیا اس کی غیر ملکی حکومت کا آخری حصہ دانستہ اور غیر دانستہ غلطیوں کا ایک المیہ کھیل بن کر رہ گیا۔ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک اس دوران برطانوی قیادت سے ہونے والی بیشتر غلطیوں کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

1900ء میں پیدا ہونے والا لوئی ماونٹ بیٹن شاہی خاندان کا ایک خودپسند نوجوان تھا جس نے دوسری عالمی جنگ میں بحری کمانڈر کی حیثیت سے قابل تعریف کارکردگی دکھائی تھی۔ تاہم ہندوستان کا مسئلہ گھمبیر سیاسی اور آئینی نزاکتوں سے مملو تھا۔ اسے مخصوص عسکری پہل کاری، جلد بازی اور دو ٹوک رویے کی بجائے ٹھنڈے دل و دماغ اور فراست کی ضرورت تھی۔ ہندوستان کی تقسیم میں ایک بہت بڑے انسانی المیے کے بیج موجود تھے جنہیں برگ و بار لانے سے روکنے اسی پیمانے پر انسانی آلام کی تفہیم اور ہمدردی کی ضرورت تھی۔ میدان جنگ میں کسی جنرل کے ایک غلط فیصلے سے چند سو جانیں ضائع ہو جانے کو عام طور پر جنگی \"india-600\"        کارروائی کا ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل میں کسی رہنما کی بدتدبیری سے ایک انسانی جان کا زیاں بسا اوقات صدیوں پر محیط سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے انسانی آلام کی سوجھ بوجھ اور انسانی ہمدردی ایسی مہارتیں نہیں جو عسکری تربیت گاہوں میں سکھائی جا سکیں۔

 برطانوی ہند کے آخری وائسرائے کے طور پر ماونٹ بیٹن ایسے شخص کا انتخاب موزوں نہیں تھا جسے انصاف سے زیادہ سستی مقبولیت اور لمحہ ¿ موجود کی ذمہ داریوں سے زیادہ تاریخ کے صفحات میں اپنے بنتے بگڑتے تاثر کی زیادہ فکر ہو۔ ہندوستان سے برطانوی انخلا کی تاریخ جون 1948ءکی بجائے اگست 1947ءمقرر کرنا ایک تباہ کن فیصلہ تھا لیکن 47 سالہ ماﺅنٹ بیٹن تو اپنی دل کش شخصیت اور قوت فیصلہ کی داد کا متمنی تھا۔

تقسیم ہند کے منصوبے میں پنجاب اور بنگال کی حد بندی کے لیے ایک باﺅنڈری کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا خیال تھا کہ اس نازک ذمہ داری کے لیے پریوی کونسل کے کسی تجربہ کار منصف کا انتخاب کیا جائے گا نیز یہ کہ اسے بین الاقوامی سرحد کے تعین جیسے نازک امور میں معاونت کے لیے تاریخ، جغرافیہ اور سول انتظامیہ جیسے شعبوں سے ماہرین کی خدمات مہیا کی جائیں گی۔ اس کے برعکس 3 جون 1947ءکولندن کے ایک غیر معروف وکیل سیرل ریڈ \"india-1947\"کلف کو یہ کام سونپ دیا گیا۔ سرکاری طور پر یہ توجیہ دی گئی کہ پریوی کونسل کے سن رسیدہ ارکان جون اور جولائی کے مہینوں میں ہندوستان کے بلند درجہ حرارت کی برداشت نہیں رکھتے تھے۔ ریڈ کلف کی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔

47  سالہ ریڈ کلف نے اس سے قبل کبھی ہندوستان کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس امر کو اس کے انتخاب کی خوبی بتایا گیا کہ ہندوستان میں سیاسی قیادت سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باعث ریڈکلف غیر جانبداری کے تقاضے پورے کر سکے گا۔ البتہ یہ بات بھی اتنی ہی اہم تھی جسے نظر انداز کر دیا گیا کہ ہندوستان کے سیاسی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حالات سے مکمل طور پر نابلد ہونے کے باعث ریڈکلف اس اہم ذمہ داری کے لیے قطعی طور پر ناموزوں تھا۔ یہ درست ہے کہ ریڈکلف ہندو ، مسلم ، سکھ غرض کہ ہندوستان کے کسی مذہبی گروہ کے بارے میں دوستانہ یا مخاصمانہ جذبات نہیں رکھتا تھا لیکن برطانیہ کی اشرافیہ میں رسوخ اور ربط ضبط کے باعث اس کی واضح ترجیح برطانوی مفادات کا تحفظ تھی۔

یہ حقیقت واضح تھی کہ برطانیہ کے دگرگو ں داخلی حالات اور وسیع ہندوستانی سلطنت کے پیچیدہ ہوتے حالات کے باعث برطانوی حکومت جلد از جلد ہندوستان سے رخصت ہونا چاہ رہی تھی لیکن اس عجلت کو ریڈکلف کی بے حسی کو پہنچتی ہوئی غفلت نے ایک نئی جہت بخش دی۔ دریاﺅں کا محل وقوع ، بجلی گھر، متعلقہ صنعتوں کے مراکز ، آبی ذخائر جیسے پیچیدہ عوامل تو ایک طرف ریڈکلف نے آبادی کی مذہبی شناخت اور انتظامی تقسیم نیز جغرافیائی اتصال جیسے طے شدہ اصولوں کو بھی \"Indiaبالائے طاق رکھ دیا۔ حد بندی کی لکیر میں شہروںاور قصبوں کی کلیت کو مدنظر رکھنا تو درکنار ، اس کی کھینچی ہوئی سرحد لکیر متعدد مقامات پر گنجان آبادیوں کے عین بیچ سے گزرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ”بستی ایک طرف اور دکانیں سرحد کی دوسری طرف ، فصلوں کے مالک ایک گاﺅں میں اور ان کے کھیت دوسرے ملک میں “

1856 ءمیں برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قانون تعزیرات ہند پر بیس برس تک بحث ہوئی تھی کیونکہ اس کا مسودہ قانون لارڈ میکالے نے 1836ءمیں پیش کیا تھا۔ 1927 ءمیں بادشاہ معظم نے زرعی بندوبست کی اصلاح کے لیے جو کمیشن قائم کیا تھا اس نے موقع کا معائنہ کرنے کے لیے ریل کے ذریعے ہندوستان کے طول و عرض کا ایک سال تک دورہ کیا تھا۔ جب حکومت کرنا مقصود تھا تو ایسی باریک بینی پیش نظر تھی۔ ملک چھوڑنے کا وقت آیا اور کروڑوں انسانوں کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھنے والے فیصلے درپیش تھے تو ریڈ کلف صاحب نے پنجاب میں ممکنہ حد بندی کے علاقوں پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک ہی پرواز کافی سمجھی۔

پریوی کونسل کے سرد گرم چشیدہ ارکان کے بارے میں خدشہ تھا کہ وہ ہندوستان کی گرمی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ریڈکلف ہندوستان کے سیاسی درجہ حرارت سے ایسے گھبرائے کہ 9اگست 1947 ءکو ایوارڈ کا مسودہ ماﺅنٹ بیٹن کے سپرد کر کے انگلستان نکل گئے اور 17اگست 1947ءکوایوارڈ کے اعلان کا انتظار تک نہ کیا۔ حد \"india02\"بندی کے معاملے پر اختلافات اور تاخیر سے بچنے کے لیے کمیشن کے معاملات کو خفیہ رکھا گیا تھالیکن یہ امر کچھ ایسا راز نہیں رہا کہ9اگست 1947ءکے بعد نہرو اور پٹیل کو ایوارڈ کے مندرجات کی خبر مل چکی تھی۔ انتھونی ریڈ اور ڈیوڈ فشر نے 1998ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتابThe Proudest Day: India\’s longest road to Independence میں شواہد کی مدد سے بتایا ہے کہ ریڈکلف کے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے ستلج کے مشرق کی طرف کم از کم دو مسلم اکثریتی تحصیلیںپاکستان کی بجائے ہندوستان کو تفویض کر دی گئیں جن کی مجموعی آبادی 5لاکھ تھی۔

آئیے 1941ءکی مردم شماری کے مطابق صرف گورداسپور اور ملحقہ علاقوں کی آبادی کا مذہبی شناخت کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔

گورداسپور : کل آبادی 16641 مسلم آبادی 8263 شرح فیصد 49.65

دینانگر : کل آبادی 6968 مسلم آبادی 3145 شرح فیصد 45.13

دھاریوال : کل آبادی 7388 مسلم آبادی 2658 شرح فیصد 35.98

بٹالہ : کل آبادی 44458 مسلم آبادی 29859 شرح فیصد\"india-192000\"67.16

ڈیرہ بابا نانک : کل آبادی 5872 مسلم آبادی 2429 شرح فیصد 41.37

پٹھان کوٹ : کل آبادی 12354 مسلم آبادی 6716 شرح فیصد54.26

ڈلہوزی : کل آبادی 1319 مسلم آبادی 549 شرح فیصد41.62

بلکوہ چھاﺅنی : کل آبادی 4061 مسلم آبادی 286 شرح فیصد7.04

بالن چھاﺅنی : کل آبادی 1357 مسلم آبادی 395 شرح فیصد29.11

کل آبادی: 100418 مسلم آبادی 54300 شرح فیصد 54.07

ان اعداد و شمار کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ گورداسپور اور اس جیسے بہت سے علاقوں میں مذہبی اعتبار سے آبادی اس طرح گڈ مڈ تھی کہ کوئی واضح\"india01\" شناخت متعین کرنا آسان نہیں تھا۔ 1941ءکی مردم شماری کے ضمن میں ایک اور اشارہ بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ بڑے شہروں کو چھوڑ کر مضافاتی علاقوں میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں حیرت انگیز طور پر کم بتائی گئی تھی۔ مثلاً اگر کسی علاقے میں مردوں کی تعداد 1000ہے تو عورتوں کی تعداد 240بیان کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا بعید از حقیقت تھا خاص طور پر اس لیے بھی کہ 1941ءمیں عالمی جنگ کے باعث پنجاب میں مردوں کی ایک بڑی تعداد بھرتی ہو کر ملک سے باہر جا چکی تھی۔ واضح طور پر سماجی پسماندگی کے باعث لوگوں کو مردم شماری میں خواتین کے ذکر سے عار تھا۔ تاہم اس سے مردم شماری کے معیار کا بھی تعین کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ گورداسپور میں بٹالہ واحد مقام تھا جہاں مسلم آبادی دو تہائی سے زائد تھی۔ بٹالہ میں قادیان کا قصبہ شامل تھا جو احمدیہ فرقے کا مرکز تھا۔ احمدیہ فرقے نے ایک تحریری یادداشت کے ذریعے باﺅنڈری کمیشن سے درخواست کی تھی کہ انہیں مسلمان شمار کیا جائے۔ اس کے باوجود گورداسپور بھارت کے سپرد کر دیا گیا۔ پاکستان میں یہ مفروضہ عام ہے کہ گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کا کشمیر کی ریاست سے جغرافیائی اتصال ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم یہ مفروضہ جغرافیائی حقائق سے لاعلمی کی بنیاد پر ہے کیونکہ 1947ء تک پٹھان کوٹ کو تحصیل کا درجہ دیا جا چکا تھا اور نئی تحصیل میں غیر مسلم آبادی 67 فیصد تھی جسے بہرصورت بھارت کے حصے میں آنا تھا۔ پٹھان کوٹ سے ریل براہ راست ہوشیارپوراور کانگڑہ کی طرف نکلتی تھی چنانچہ ہندوستان کا کشمیر سے \"india05613\"جغرافیائی اتصال گورداسپور کا محتاج نہیں تھا۔ ریڈکلف ایوارڈ میں تبدیلی کر کے گورداسپور تحصیل بھارت کے حوالے کرنے کے اسباب مختلف تھے۔ ایک وجہ تو دریائے راوی کو قدرتی سرحد قرار دینا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کانگرس گورداسپور کی سکھ آبادی کی ممکنہ نقل مکانی روک کر گویا سکھوں کی تالیف قلب چاہتی تھی جو پنجاب کی تقسیم کی صورت میں مونٹگمری (ساہی وال) اور لائل پور کے زرخیز علاقوں نیز پاکستان میں آنے والے اپنے مقدس مقامات کا مطالبہ کر رہے تھے ۔

 یہ امر باعث حیرت ہے کہ غیر جانبداری میں مبالغے آمیز دعوے رکھنے والے ریڈ کلف کے عملے میں وی پی مینن شامل تھے جن کے کانگرس بالخصوص پنڈت نہرو سے روابط میں راز کا کوئی پہلو نہیں تھا۔

بعد میں آنے والے بہت سے مورخ اس ہنگامہ پرور عہد کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لیے متعلقہ فریقوں میں طے پانے والے اصول فراموش کر بیٹھے۔ پہلا اصول متعلقہ علاقے کی غالب مذہبی شناخت تھا، دوسرا اصول جغرافیائی اتصال تھا اور تیسرا اصول ’دیگر عوامل‘ تھا۔ یہ تیسرا اصول انگریز بہادر کی مخصوص انتظامی احتیاط پسندی کا نمونہ تھا جس کی آڑ میں گویا باقی دونوں اصولوں سے صرف نظر کا جواز برآمد کیا جا سکتا تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ باﺅنڈری کمیشن کی طرف سے دونوں صوبوں کی تقسیم کس قدر غیر شفاف تھی۔\"india03\"

آبادی سے قطع نظر تحصیلوں اور اضلاع کی من مانی تقسیم محض پنجاب تک محدود نہیں تھی۔ بنگال کے ضلع مالدامیں مسلمان معمولی سی اکثریت میں تھے لیکن اس ضلعے کو تقسیم کر کے مالدا کے قصبے سمیت بیشتر حصہ بھارت کو دے دیا گیا۔ کھلنا ضلع میں ہندو آبادی 52 فیصد تھی لیکن اسے مشرقی پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔ مرشد آباد ڈسٹرکٹ میں مسلمان 70 فیصد تھے لیکن یہ چھوٹا سا ضلع بغیر کسی واضح سبب کے بھارت کو دے دیا گیا (2001ءمیں بھارت کی مردم شماری کے مطابق بھی مرشد آباد میں مسلمان آبادی 52.3 فیصد پائی گئی)۔ کریم گنج سلہٹ کے ضلع کا حصہ تھا۔ سلہٹ کے باشندوں نے استصواب کے ذریعے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ کریم گنج ایک مسلمان اکثریتی قصبہ تھا لیکن اسے بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم میں مجرمانہ ناانصافیوں کی سب سے بڑی مثال تو چٹاگانگ کا پہاڑی سلسلہ تھاجہاں غیر مسلم آبادی 97 فیصد تھی۔ جن کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار تھی۔ چٹاگانگ کے غیر مسلم اکثریتی علاقے کو بغیر کوئی وجہ بتائے مشرقی پاکستان میں شامل کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب سے چند برس قبل بنگلہ دیشی حکومت اور چٹاگانگ کے مقامی باشندوں میں سمجھوتہ ہونے تک یہ خطہ قریب نصف صدی تک مسلح بغاوت کا شکار رہا۔

\"india4\"پنجاب اور بنگال کی تقسیم میں ان ناقابل فہم ناانصافیوں کی بنا پر دونوں نوآزاد ممالک کے تمام متعلقہ فریقوں میں ناانصافی کا احساس پیدا ہوا۔ ہر فریق سمجھتا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس احساس سے نفرت اور غم و غصے نے جنم لیا۔ انگریز بہادر تاریخی ریکارڈ کی حفاظت میں مثالی شہرت رکھتا ہے لیکن باﺅنڈری کمیشن کے معاملے میں حیران کن بات یہ ہوئی کہ سیرل ریڈ کلف ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوئے باﺅنڈری کمیشن کا تمام ریکارڈ نذر آتش کر گئے۔ تاہم اس وقت کی مرکزی سیاسی قیادت کی تحسین کرنی چاہیے کہ ہندوستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ریڈ کلف ایوارڈ کو تسلیم کر لیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے صرف یہ کہا کہ ریڈ کلف ایوارڈ میں ناانصافیاں کی گئی ہیں لیکن ہم نے اس ایوارڈ کو تسلیم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے لہٰذا ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان بے قاعدگیوں سے قطع نظر اس وقت کے معروضی حالات میں باﺅنڈری کمیشن کا کوئی فیصلہ بھی تمام فریقوں کو مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments