کرونا وائرس اور علمائے کرام کا کردار


کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہوا ہے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کی رسائی چاند سے آگے مریخ تک ہے اس عالمی وبا کے آگے بے بس نظرآتے ہیں پوری دنیا میں نفسا نفسی کا عالم ہے، سائنسی دنیا کے پاس سوائے احتیاط کے کوئی علاج نہیں مذاہب عالم خاموش ہیں ویسے بھی ماسوا اسلام کے مذاہب عالم کے پاس ہے ہی کیا وہ تو انسانی خودساختہ نظام کے گود میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے جب کہ اسلام باقاعدہ ایک حیاتِ جاوید کی روشن تصویر ہے، جس میں نظام عدل، نظامِ معیشت، خاندانی و سماجی نظام زندگی گزارنے ساتھ ساتھ اپنے خالق حقیقی سے رشتہ بندگی قائم رکھنے کے طریقہ کار واضح کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ عالم اپنے وجود کے روزِ اول سے اپنے مذہبی پیشوا کے بہت قریب نظر آتے ہیں، ولادت سے موت تک، شادی بیاہ، تقسیم میراث، اصولِ زندگی و بندگی عین دینِ اسلام مطابق کیسے ممکن ہے یہ علمائے کرام ہی کی مرہونِ منت ہے کہ صدیوں سے عوام الناس کو دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ رسول اللہﷺ کے ارشادات کے عین مطابق رہنمائی کرتے آئے ہیں، پھر کیسے ممکن ہے کہ کرونا جیسی عالمی وبا کی صورت میں مسلمانوں کی نگاہیں اپنے ائمہ و پیشواء کے جانب نا اٹھیں اور وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمان و عالم انسانیت کی رہنمائی نا کریں۔

ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علمائے کرام مساجد و مدارس کے چار دیواری میں بسنے والی وہ مخلوق ہے جو دنیا اور اس کے جدید نظام اس کی ترقی سے نا آشنا ہے، یہ وہ قدامت پسند طبقہ ہے جو ضروریات انسانیت سے بے خبر ہے، ان کا کام صرف چٹائیوں میں بیٹھ کر اللہ اور اس کے رسولوں کے قصے سنانا اور نکاح و جنازہ پڑھاناہے، مولویت کے تاریخ سے نابلد لوگ ہی ایسا سوچ سکتے ہیں، جبکہ اسلام کی تحفظ، ترویج و اشاعت اور انسانیت کی بھلائی کے لئے جب جہاں ان کی ضرورت پیش آئی علمائے کرام نے بناکسی لالچ کے اپنا کردار ادا کیا۔ آج سے صرف سو سال پہلے تک اسلامی سلطنت کی نظامِ عدلیہ، نظامِ تعلیم، نظامِ معیشت سمیت ملکی اہم انتظامی امور علماء اسلام ہی کے زیرِ نگین تھے، زمانہ حاضر میں بھی علمائے کرام کی خدمات کسی سے کمتر نہیں، آج ایک طرف جدید تمدنی ترقی نے نٹ نئے مسائل کا طوفان لا کھڑا کردیا ہے بالخصوص بینکنگ و میڈیکل سائنس کی دنیا میں غیرمعمولی انقلاب نے سیکڑوں ایسے مسائل پیدا کردیئے جن کا حل مذاہب عالم اور ان کے پیشوا کے پاس نہیں تھے ایسے نازک موقع پر عصرِ حاضر کے علمائے کرام نے اسلامی معیشت، اسلامی بینکنگ، ٹیسٹ بے بی ٹیوب، انسانی دودھ اور منی بینک، تبدیلی جنس بذریعہ سرجری، جینیٹک اور کلوننگ کے مسائل، انسانی خون کا مسئلہ، گردے کی تبدیلی اور انسانی اعضاء کی پیوند کاری سمیت سیکڑوں جدید مسائل پر پرمغز تحقیقی مقالوں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ اسلام کے پاس عالم انسانیت کا ہر سوال کا جواب موجود ہیں۔

یقینا علمائے اسلام کی یہ خدمت اظہر من الشمس ہے، اختصار کے پیش نظر اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں حکومت اور لبرل طبقے کی جانب سے باربار یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کروناوائرس کی تباہ کاری سے علمائے کرام ناواقف ہے، اگر پاکستان میں کرونا وائرس پھیلتا ہے تو اس کی اصل وجہ علمائے کرام کی بے احتیاطی ہوگی، میں ان حضرات کی خدمت میں نہایت ادب و احترام سے گوش گزار کرنے کی جسارت کرنا چاہون گا کہ کیا صرف علمائے کرام ہی غیر محتاط ہیں اور جناب کیا آپ حضرات نے سوائے لاک ڈاؤن کے اس عالمی وبا کرونا وائرس سے بچنے کے لئے کوئی اور انتظام کیا ہے؟

کیا آپ عوام لاک ڈاؤن کے متحمل ہیں؟ ملک کا ایک بڑا طبقہ جو پہلے سے ہی بیروزگار ہے اور غربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں اور وہ طبقہ جو روزانہ کے بنیاد پر کماتے ہیں، ان کے لئے آپ نے کیا انتظام کیا ہے، علمائے کرام تو اپنی تقریروں، تحریروں اور تدبیروں سے عوام کو وبا کی خطرات سے آگاہ بھی کررہے ہیں اور شرعی حکم بھی بیان فرمارہے ہیں ساتھ میں عوام کو صلہ رحمی کرنے صدقات دینے اور استغفار کرنے کی مسلسل تلقین فرمارہے ہیں ساتھ ہی آپ کے حکم کے مطابق مساجد و مدارس بھی بند کردیئے، دینی مدارس کے سربراہان نے سالانہ امتحانات اور طالبعلموں کی زندگی کی سب سے یادگار لمحہ یعنی دستار بندی کے پروگرام تک ملتوی کردیئے، جس میں شیخ الاسلام جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے حکومت اور مذہبی طبقے کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور حکومت کی جانب سے کیے گئے احتیاطی تدبیروں پر من و عن عمل کرنے کی ہدایت کی۔

پھرکیا وجہ ہے کہ علمائے کرام ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ تمام سپر مارکیٹ کھلے ہوئے ہیں اور وہاں عوام کا رش حکومت کی حکمت عملی کی ناکامی کی منہ بولتا ثبوت ہے، پولیس ہیڈ کوارٹر، مارکیٹوں اور دیگر عوامی مقامات پر غیرمعمولی ہجوم کیا کرونا وائرس پھیلنے کے لئے کافی نہیں۔ عوام الناس کو گھروں تک محدود رکھنا امام مسجد کا کام ہے یا انتظامیہ کا؟

کیا ائمہ مساجد علمائے کرام ہمارے معاشرے کا معززترین طبقہ نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کے اس دوہرے معیار پر میرے دل و دماغ میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کہ ایک پروفیسر کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھ کر حکمرانوں کے ایوانوں میں طوفان برپا کرنے والے علم دوست معاشرے کو درجنوں علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہتھکڑی نظرنہیں آئی، کیا ان علمائے کرام کا احترام حکمران سمیت ہم سب فرض نہیں؟ ہمارے معاشرے میں مولویت مظلوم، خدمت گار اور علم دوست طبقہ ہے ان کی روشن کردار کی قدر کریں ناکہ بلاجہ وجہ تنقید کے نشتر چلائیں اگر علمائے سو معاشرے میں دین، تہذیب و تمدن پر حملہ آور ہیں تو علمائے حق کی بہت بڑی تعداد اسلامی اقدار اور علم و حکمت کی پاسبان ہے جو احسن انداز میں عالم انسانیت کے سامنے دین اسلام کی ترجمانی کررہے ہیں اور انہی کی وجہ سے ہمارا دین، تہذیب و تمدن محفوظ و مامون ہے، اللہ بزرگ و برتر ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments