سفید پوش اور برساتی مینڈک


ان دنوں کراچی کی سڑکوں کے کنارے بیلچے، کھدال، ٹرالی، کنستر، رنگ کے خالی ڈبے، اور برش تھامے افراد کی ایک لمبی قطار جگہ جگہ صبح سے شام تک نظر آرہی ہے، ان میں کچھ افراد تو حقیقی مزدور ہی ہیں جو روز کماتے اور کھاتے ہیں اوراس امید پر بیٹھے ہوتے ہیں کہ شاید ان کی مزدوری لگ جائے اور وہ باعزت طریقے سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں، تاہم ان افراد میں ایک بڑی تعداد ان برساتی مینڈکوں کی ہے جو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ضرورت مندوں کا حق مارتے ہیں اور مصیبت و بحران کو مال جمع کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مصیبت کی کوئی گھڑی ہو یا کوئی جشن و تہوار، کراچی کے شہری مال خرچ کرنے سے نہیں گھبراتے، اس کا عملی مظہر پورے سال مختلف انداز میں شہر کراچی میں دیکھنے کو ملتا ہے، ماہ رمضان میں سڑکوں کے کنارے افظار کے دسترخوان ہوں یا چھیپا، ایدھی اور جے ڈی سی کے تحت ضرورت مند اور نادار افراد کو دوپہر اور رات کے کھانے کی فراہمی ”، کراچی کی عوام دل کھول کر ان کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

ان دنوں لاک ڈاون کے باعث جب شہر کراچی میں تجارتی، کاروباری، سیاسی، اور سماجی سرگرمیاں مفلوج ہو گئیں ہیں تو کیسے ہو سکتا ہے کہ کراچی کی عوام اپنے مفلس و نادر بھائیوں کو تنہا چھوڑ دیں، یہی وجہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ تاہم مشکل کی اس گھڑی اور آفت کے اس موقع پر بھی ایک موقع پرست گروہ ایسا ہے جوبرساتی مینڈکوں کی طرح، مزدوروں کے بھیس میں مفلسی کا لبادہ اوڑھے حق دار کا حق غضب کرنے میں مشغول ہے۔

یہ گروہ مزدوری کے آلات لیے سڑکوں کے کنارے قطار بنائے شکار کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور جیسے ہی کوئی رقیق القلب شخص ان کو ضرورت مند سمجھتے ہوئے راشن بیگ اور کرنسی نوٹ لے کر ان کے پاس جاتاہے تو یہ جتھے کی صورت میں اس پر اس بری طرح حملہ آور ہوتے ہیں کہ جیسے مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے ہوں اس صورت حال میں امداد کرنے والے کا اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتاہے اور وہ امدادی سامان جیسے تیسے ان کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑاتا ہے۔

دوسری جانب معاشرے ک ایک طبقہ سفید پوشوں پر مشتمل ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھ پھیلانا تو دور کی بات ”، اگر کوئی ان کو ترس بھری نظر سے بھی دیکھے توان کو گراں گزرتا ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہوں یہ اپنے احوال کا تذکرہ کسی بھی نہیں کرتے، مبادہ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اس سے کسی مالی امداد کی توقع لگائی ہوئی ہے۔ ایسے لوگ نہ تو راشن کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ امدادی سامان حاصل کرنے والوں کی فہرستوں میں اپنے نام کا اندراج کرتے ہیں۔

نہ ہی یہ حکومت کی جانب سے دی گئی امدادی پیکیج سے استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی فلاحی اداروں کی امدادی اسکیموں سے کیونکہ ان کی عزت نفس گوارا نہیں کرتی کہ وہ تحقیرآمیز رویے کا سامنا کریں۔ تاہم ان افراد تک پہنچنا ایسا کچھ مشکل بھی نہیں ہے، ایسے افراد ہر علاقے، ہر بستی، ہر خاندان میں ہوتے ہیں، ان کو پہچاننے کے لیے صرف قریب کی نگاہ اچھی ہو نے اور بلا تشہیر کسی کی مدد کرنے کے جذبے کی ضرورت ہے۔

مزید برآں، ایک جانب جہاں خدمت خلق کے جذبے کو دیکھر دلی خوشی محسوس ہوئی، وہیں کچھ ایسے مناظر بھی نظروں سے گزرے کہ دل چیر کر رہ گیا، جیسے کہ کہیں چار پانچ افراد نے ایک آٹے کی بوری کسی غریب کو دیتے ہوئے فوٹو سیشن کرایا اور اس کو سوشل میڈیا پر سجا دیا، تو کہیں کسی شوبازنے کسی ضرورت مند کو نوٹ تھماتے ہوئے سیلفی لی اور اسٹیٹس اپ دیٹ کر دیا، کہیں ایک ہزار کا نوٹ پکڑاتے تشہیر کی گئی تو کہیں فقط صابن کی ایک ٹکیہ۔ غرض یہ کہ امداد کے نام پرجس طرح ریاکاروں نے انسانیت کی تذلیل کی، اس رویے سے درد دل رکھنے والوں کے سر شرم سے جھک گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments