تنہا گھومتی بہار


اب کے بہار اکیلی ہے۔ چمن ویران، فضائیں سنسان۔ نظر کی منتظر کلیاں بن دیکھے بن مہکے مرجھا رہی ہیں۔ وادیوں میں آسیب کا سایہ ہے۔ دن بھر سورج کی کرنیں بادلوں کی اوٹ سے چہرے تلاش کرتے کرتے غرب میں ڈوب جاتی ہیں۔

شام سے پہلے اور شام کے بعد اب ندی کنارے کوئی نہیں آتا۔ نہ لہروں پہ جھریاں نہ جھریوں پہ چاندنی کا چھلکنا۔ لہریں ساکت ہیں، خاموش اور پریشان۔ شب بھر ٹھنڈی ہوائیں جسموں کی تلاش میں بستی بستی پھرتی ہیں، کوئی نہیں ملتا۔ کہیں محفل نہیں سجتی، کہیں مجمع نہیں لگتا، نہ ہی فضاؤں میں قہقہوں کی گونج پیدا ہوتی ہے۔

ان ہواؤں کو عادت تھی، صدیوں پرانی عادت۔ شب بھر یوں گھومنے کی، چہروں پر مچلنے کی، زلفیں بکھیرنے کی، ہونٹوں پہ مسکانیں بھرنے کی۔ یہ ہوائیں آج تنہا ہیں۔ رات گئے فضائیں درختوں کے پتوں پر دستک دیے جاتی ہیں، صدائیں دیے جاتی ہیں۔ سننے والا کوئی نہیں۔

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار

کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں

اک وبا نے سبھی کچھ متاثر کر دیا یے۔ زندگی بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ خوف کے بادل وہم و گمان سے نکل کر ہر در پہ پہرا دیے بیٹھے ہیں۔ خیالوں کی بستی میں آسیب کا بسیرا ہے۔ ہر سو خاموشیوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ انسان کا انسان سے ملنا ہی ممنوع قرار پایا ہے۔ ہنسنے کی چاہ نہیں ہوتی، دل لبھانے کا من نہیں کرتا۔ غرض زندگی کا کینوس بے رنگ اور بے معنی ہو گیا یے۔ روشنیاں چبھنے لگی ہیں۔ راتیں مایوسی کے سائے میں لپٹی نظر آتی ہیں۔

دنیا وبا اور اس وبا کے خوف کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ کوئی آئے گا ہاتھ بڑھائے گا اور باہر نکال لے گا، یہ امید بھی دم توڑ رہی ہے۔ انسان کو بادلوں کے سائے اب اچھے نہیں لگتے، بارش کی بوندوں میں اسے وحشت ٹپکتی دکھائی دیتی ہے، ہوا کی خنکی اس کی امیدوں کو سکیڑے جارہی ہیں۔

کیوں کہ وبا کا ماجرا زمینی خداؤں یعنی انسان کے اختیار سے باہر کا ہے کہ علاج کی کھوج ابھی کوسوں دور نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ زمینی خدا بھی پلٹ کر آخری امید آسمانی خدا اور اس کی قدرت سے جوڑ بیٹھے ہیں کہ شاید اگر موسم کروٹ بدلے اور اس بہار سے جان چھوٹے تو زندگی کا چرخا پھر سے چلنے کی امید پیدا ہوجائے گی۔ یعنی اس بہار سے جان چھڑوانا مقصود ٹھہرا کہ اس کی فضائیں زندگی کی بہاریں لوٹ رہی ہیں کہ اس کی ہواؤں نے تمام امیدوں کے دیے بجھا چھوڑے ہیں۔

یعنی اب کے جو بہار آئی ہے اسے اکیلے ہی گزرنا ہوگا، یہ امید لئے کہ گمشدہ چہروں کی آس اس کے جانے سے پوری ہو جائے۔ ہاں! اب کے بہار کو اکیلے ہی گزرنا ہوگا، بن ملے ہی پلٹنا ہوگا، یہ امید لئے کہ اب جب یہ لوٹ کر آئے تو زندگی پھر سے زندہ ہو چکی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments