غریب کی آنکھ میں روشنی بجھنے نہ دینا


دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری نے 11 مارچ تک دنیا بھر کے 115 ممالک کے تقریبا ایک لاکھ 20 ہزار افراد کو متاثر کیا اور اس وائرس سے اسی عرصے میں تقریبا 4 ہزار ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ چین سے شروع ہونے والے اس وائرس نے تقریبا دنیا کے نصف سے زائد ممالک جن میں پاکستان، امریکا، اٹلی، جرمنی، ایران، سعودی عرب، بھارت اور برطانیہ جیسے ممالک بھی شامل ہیں ان کو اپنی لپیٹ میں لیا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے 11 مارچ کی شب اسے عالمی وبا قرار دیا۔

اس سے قبل ہی عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کو وبا قرار دے چکا تھا تاہم جب اس وائرس میں شدت آگئی اور یہ نصف دنیا تک پھیل گیا تو ڈبلیو ایچ او نے اسے عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔ آخری اطلاعات ملنے تک اس بیماری کے باعث 50 ہزار کے لگ بھگ اموات واقع ہو چکی ہیں اور اس وقت یہ بیماری تقریباًپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا نے جہاں ایک ایک عالمی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے وہاں ہماری قوم کے بہت سے کمزور پہلوؤں کی نشان دہی بھی کر چکی ہے۔

اس وبا کے دوران جہاں ہماری جہالت کھل کر سامنے آئی ہے وہاں عوام کا لا ابالی پن بھی باعث شرمندگی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ عالمی وبا اتنی خطرناک نہیں ہے جتنا اس کے بارے میں عوام میں خوف وہراس پھیلا یا گیا ہے او ر اس خوف کو پھیلانے میں سب سے اہم کردار سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ جہاں ہمیں نہ صرف پوری دنیا میں ہونے والی اموات کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا بلکہ اس بیماری کے علاج کے ٹوٹکے اور گونا گوں اقسام کے روحانی و یونانی علاج سے برقت خبردار کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک اعداد و شمار کی بات ہے پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں پندرہ روزہ تعطیلات کا اعلان کیا بعد ازا ں انہیں بڑھا کر 31 مئی تک کیا جا چکا ہے۔ شادی ہال، ہوٹل اور ریسٹورنٹ تو بند تھے ہی لیکن ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈے بھی بند ہو چکے ہیں۔ حکومت کے ان حفاظتی اقدامات سے مختلف شعبہ جات سے وابستہ دیہاڑی دار، مزدور پیشہ، محنت کش اور کم آمدنی والاطبقہ سب سے زیادہ متاثر اور بے روز گارہوچکا ہے ایک حساس پاکستانی ہونے کے ناتے اس عالمی وبا کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر نہ صرف میرا دل کڑھتا ہے بلکہ اپنی قوم کا روّیہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔

مجھے جہاں ہر طرف کورونا سے خوف زدہ چہرے دکھائی دیتے ہیں وہاں ابھی ایک ایسے باپ سے ملاقات بھی ہوئی جس کے ساتھ نہ صرف اولاد نے مار پیٹ کی ہے بلکہ تھانے میں گرفتار کروانے کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے اور جو مجھے آخری امید سمجھ کر مشکل سے مجھ تک پہنچا ہے کہ میرے لئے انصاف ریلیف فنڈ سے کچھ پیسے دلوا دیں تاکہ میں اپنی بینائی کا علاج کروا سکوں، میرے پاس ایک ایسی خاتون بھی اپنا ڈیٹا آن لائن کروانے آئی ہے جس کا شوہر سرکاری ملازم ہے لیکن سات بچوں کا واحد کفیل بھی اس غربت کے کرونا کے ہاتھوں تنگ ہے۔

میرے پاس ایک ایسی بڑھیا بھی آئی ہے جس کے کمانے والے تو بہت ہیں لیکن کھلانے والا کوئی نہیں کیونکہ اس کے سر کا سائیں تو بہت عرصہ پہلے ملک عدم سدھار چکا ہے۔ میرے پاس وہ مزدور بھی آئے ہیں جو گھر کا راشن ادھار لے لے کر تھک چکے ہیں اور ان کو مقامی دکاندار ادھار نہیں دے رہا۔ شایدوہ کرونا سے تو بچ جائے مگر بھوک کے ہاتھوں اس کا پورا خاندان مر جائے گا۔ مجھے ہر یاسیت زدہ چہرے کے پیچھے جہاں کرونا کا خوف دکھائی دے رہا ہے، وہاں بھوک و افلاس کے گھٹا ٹوپ اندھیرے بھی اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔

میں نے اپنے علاقے کے ہر فرد کو اس سوچ میں غلطاں دیکھا ہے کہ یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہو اور ہم اپنے اپنے کام کو نکلیں کیونکہ اگر ایک سکول بند ہے تو اس سے وابستہ یونیفارم سینے والے درزی، کتابیں بیچنے والے دکاندار، بیج بنانے والی کمپنی اور اس سکول کا اشتہاری میٹیریل بنانے والے کی آمدنی یکسر ختم ہو چکی ہے۔ اگر ایک سروس اسٹیشن بند ہے تو اس پہ کام کرنے والے تین سے چار مزدور گھر بیٹھے اپنے نصیب کو کوس رہے ہیں۔

غرض یہ کہ کوئی بھی کاروبار بند ہے تو اس میں کام کرنے والا مزدور طبقہ پریشان ہے۔ نہ فیکٹری مالک پریشان ہے اور نہ کوئی کارخانہ دار، اگر کوئی پریشان ہے تو صرف غریب اور سفید پوش طبقہ، جس کے پاس صرف 15 یوم کی جمع پونجی تھی جو اب ختم ہونے کو ہے۔ میں جب بھی اپنی بیوی سے بات کرتا ہوں تو اس کا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ اب اپریل کیسے گزرے گا؟ خدا کرے ایسا اپریل ہماری زندگی میں دوبارہ نہ آئے جس میں اب ہمیں اپنے بچوں کی خوشیاں چھین کر بچت کرنی پڑی۔

ابھی سبزی لینے قریبی دکان پہ گیا تو سبزی فروش پریشان تھا، میرے اس سوال پہ کہ کیا ہوا؟ اس نے کہا جو جمع پونجی تھی وہ اہل علاقہ کے غریب کھاتہ داران کو ادھار دے دی ہے اب اتنے پیسے نہیں کہ منڈی سے سبزی لینے جاؤں اس لئے فیصلہ کیا ہے کہ آج سے کسی کو ادھا ر نہیں دوں گا۔ اب جبکہ گندم کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے، ہمارے دیہی علاقے کی عوام نے پورے سال کی گندم تھریشر اور ہارویسٹر پر مزدوری کر کے جمع کرنی ہے لیکن اگر لاک ڈاؤن اسی طرح رہا تو مزدور طبقے کو ہزار ہا مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اوپر سے کرونا کے خوف سے کوئی امیر کسی غریب کو گھر کا کام بھی نہیں کرنے دے رہا۔

یہاں تک کہ کراچی، اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد میں کام کرنے والے چھوٹے اور گھریلوملازمین بھی اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں۔ انصاف ریلیف فنڈ میں آن لائن درخواست جمع کروانے والے ہر غربت زدہ چہرے پہ ایک ہی سوال ہے کہ ”پتر! اے راشن ساکوں کڈاں ملسی ( بیٹا! یہ ریلیف فنڈ کا راشن ہمیں کب ملے گا؟ ) ، کچھ تو مجھے خود اس ادارے کا کوئی اعلیٰ افسر سمجھتے ہوئے منت زاری کر ہے ہیں کہ“ بیٹا!

کوشش کرنا مجھے لازمی مل جائے، میرے حالات بہت تنگ ہیں، ہم بہت پریشان ہیں، ہمیں پہلے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کچھ نہیں ملا۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں غربت کے مناظر بیان کر سکوں یا ان کی اصل تصویر کشی کر سکوں کہ غربت کا حزن و ملا ل کیا ہوتا ہے؟ لیکن میں ان کو ایک ہی مثال دے کر ان کی ڈھارس بندھا رہا ہوں کہ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“

میری تو بس ارباب اختیار سے یہی گزارش ہے کہ اب آپ ہی ہر بوڑھی اور ضعیف ماں کی آنکھوں کی آخری امید ہیں، اب اس امید کے دیے کو بجھنے نہ دیجیئے گا، اب ان کو منصفانہ طورپر کچھ نہ کچھ لازمی دیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کا آپ جیسے حکمرانوں سے اعتبار ہی اٹھ جائے۔ اب غربت کی آنکھ کی روشنی عثمان بزدار اورعمران خان کے ہاتھوں میں ہے اور ایک مثبت سوچ رکھنے والے شہری کی حیثیت سے مجھے امید ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کسی غریب کو مایوس نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments