لاک ڈائون میں خوراک کی تقسیم کیسے کی جائے


اٹھارویں ترمیم کے بعد زیادہ تر مالی اور انتظامی اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، قابلِ تقسیم رقم کا % 57.5 صوبوں کو ملتا ہے۔ جبکہ صرف % 42.5 وفاق کے حصے میں آتا ہے، موجودہ ابتلاء میں صوبے اس رقم کا درست استعمال کریں اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کو موثر انداز میں استعمال کر سکیں تو کسی ہا ہا کار اور چیخ پکار کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، اہم مسئلہ یہ ہے کہ صوبوں نے خود تو وسائل حاصل کر لئے لیکن وہ اس رقم کو ابادی کے تناسب سے شہری اور ضلعی حکومتوں کو منتقل نہیں کر رہے اسے سیاسی حکمتِ عملی کہہ لیں یا بدنیتی یہ آپ کی مرضی

اگر یہ رقم آبادی کے تناسب سے شہری اور ضلعی حکومتوں کو منتقل کر کے راشن یا امداد کی تقسیم کا باقاعدہ میکینزم ترتیب دے دیا جائے تو ضلعوں سے یونین کونسل تک وافر فنڈز دستیاب ہوں گے اور پھر اس سے نیچے کونسلر کی سطح پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے مستحق افراد کا تعین و ترجیح طے کر کے ان کے گھر کے دروازے تک خوراک و اناج پہنچا کر مکمل لاک ڈاؤن پر عمل بھی کیا جا سکتا ہے اور کرونا وائرس کو محدود بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ تجویز قابل عمل اور دستیاب انفراسٹرکچر سے استفادہ کرنے کے لئے ممکنہ حد تک موثر اس لئے بھی ہے کہ ایک یونین کونسل کم و بیش چالیس سے پچاس ہزار ووٹرز پر مشتمل ہوتی ہے۔ جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے حساب سے آٹھ سے دس ہزار گھر بنتے ہیں ہر یونین کونسل میں چار وارڈ ہوتے ہیں جہاں سے چار جنرل کونسلر براہِ راست منتخب ہوتے ہیں اس طرح ایک کونسلر تقریباً دو ہزار گھروں پر اوسطاً منتخب ہوتا ہے اور یہ دو ہزار گھر شہری علاقوں میں چند گلیوں اور دیہی علاقوں میں محدود رقبے پر مشتمل ہوتے ہیں اور ہر جنرل کونسلر کو ان میں ایک ایک گھر کے بارے میں نا صرف یہ معلوم ہوتا ہے۔

کہ کون اس کا سپورٹر ہے۔ کون مخالف بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون معاشی طور پر خود کفیل ہے اور کون محتاج اور پھر یہ بھی کہ ان دو ہزار گھروں میں صاحبِ حیثیت لوگ بھی ہوتے ہیں، متوسط طبقہ بھی، غریب بھی اور بہت زیادہ غریب بھی تو اس سے امداد کی تقسیم میں یہ فرق کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ کون حقدار ہے یا نہیں اور کون ضرورت مند ہے۔ بھی یا نہیں، اگر یہ اندیشہ مدنظر رکھ بھی لیا جائے کہ اس امداد میں خردبرد ہو سکتی ہے۔

تب بھی مقامی مخالفوں کا خوف اور اپنی ساکھ کی عزت کا احسا اس عمل کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، مزید یہ کی اس عمل کی نگرانی کے لئے سول انتظامیہ اور مقامی ایم پی اے یا سول سوسائٹی پر مبنی کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ اس سے ہو گا یہ کہ اگر بالفرض ایک یونین کونسل کو ایک کروڑ روپے کی گرانٹ ماہانہ دی جاتی ہے۔ تو وہ چاروں کونسلروں میں پچیس پچیس لاکھ کی شکل میں تقسیم ہو گی اور اگر کسی کونسلر کے حلقہ انتخاب میں موجود دو ہزار گھرانوں میں سے ایک ہزار بھی ضرورت مند ہیں تو ان کے گھروں میں پچیس سو روپے کا راشن ڈلوایا جا سکتا ہے۔

جو کہ آج بھی کسی اوسط گھرانے کے بنیادی راشن کے تخمینے کے برابر ہے، اب آپ خود سوچئے کہ ملک بھر میں نچلی سے نچلی سطح پر باضابطہ طریقے سے عوام کو براہِ راست فوائد اور موجودہ صورتحال میں راشن پہنچانے کا اس سے بہتر شفاف، قانونی اور انتظامی طریقہ اور کون سا ہو سکتا ہے اور وہ بھی اس بحث میں پڑے بغیر کہ کہاں سے کس پارٹی کا یا آزاد کونسلر جیتا ہے۔ کیونکہ وہ جو بھی ہے۔ بہرحال عوام کا منتخب کردہ ہے اور لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہوا ہے۔

اس پورے عمل میں واحد رکاوٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کریڈٹ لینے کی دوڑ ہے۔ کیونکہ یہ چاہتی ہیں کہ عوام کو یہ امداد جو ان کا حق ہے، خیرات کی شکل میں ان پارٹیوں کے کارکنوں کے ہاتھوں سے ملے تا کہ یہ اگلے الیکشن میں اسے جتا کر اپنے لئے ووٹ حاصل کر سکیں

اس لئے ہمیں اچھے لگیں یا برے، ہماری پسندیدہ پارٹی کے ہوں یا کسی مخالف پارٹی کے لیکن گراس روٹ سطح پر عوام سے رابطے کے لئے یہی ”کونسلر“ دستیاب ترین موثر وسیلہ ییں۔ اس آفت کی دنوں میں سیاسی مسابقت، انفرادیت، شناخت، لیوریج یا نمبر اسکورنگ سے کہیں اوپر اُٹھ کر سوچنے اور قوم کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تباہی ہمارے دروازے پر کھڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments