سپاہی کے لاشے کے نہ پورے ہونے والے ارمان


\"amara-shah\"پیاری ماں میں یہاں انتظار میں ہوں کہ عالمِ ارواح کے اربابِ حل و عقد کب اس فیصلے پر پہنچیں گے کہ ہمیں مارنے والا شہید ہے کہ ہم شہید ہیں کیونکہ وہ بھی اسی الجھن میں ہیں کہ مارنے والا بھی کلمہ گو، عقیدہ کا پکا اور جواں سال تھا۔ وہ بھی میری طرح کسی کا لختِ جگر اور لعل تھاوہ بھی اپنی کنبے کی کفالت کے لئے کسی کیمپ میں زیرِ تربیت تھا اور اسے بھی ہمیں مارنے کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ ہاں ایک فرق ضرور تھا کہ شاید اس نے اپنے مرنے کی مزدوری خود کو اڑانے سے پہلے اپنی ماں کو بھیج دی ہے اور میں مہینہ پورا ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ کب مجھے گزارا الاؤنس ملے گا اور میں تجھے روانہ کروں گا۔

جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونے کا تو پتہ نہیں ابھی مزید کتنا وقت درکار ہو اور جنت کا قرعہ کس کے نام نکلے گا۔ سنا ہے کہ مقتدر حلقوں میں اور ریاست کے مالکان نے مجھے شہید ٹھہرایا ہے۔ ہمارے تربیتی مرکز کا دورہ بھی کیا ہے اور ٹی وی اخبارات میں اپنے حوصلے بلند ہونے کا غلغلہ بھی بلند کیا ہے۔ بزدل دشمن ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتا کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے اور اس میں غیر مرئی جنگ کو منتقی انجام تک پہچانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ گورنر ہاؤس میں کچھ اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں جس میں سب کچھ زیرِ بحث آیا ہے سوائے ہم جیسے لاوارث لاشوں کے۔ دوسری طرف صاحبانِ جبہ و دستار ہمیشہ کی طرح گومگو کا شکار ہیں۔ وہ شاید سیاسی ضرورت کے تحت ہماری موت کی مذمت تو ضرور کر رہے ہیں لیکن مارنے والی کی مذمت پہ ان کے لب ہمیشہ کی طرح سلے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو چوبیس گھنٹوں میں ہی وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کو بچانے کی مہم پر مصروف ہو چکا ہے۔ انھیں اس بحث سے فرصت نہیں کہ کیا ملک کا وزیرِاعظم کسی قانون قاعدے کا پابند ہے یا غریبانِ وطن اس سے احتساب کا مطالبہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ عدلیہ بھی بنیادی انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف نظر آرہی ہےاور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کسی شہری کے سکول جانے اور دکان کھولنے کے بنیادی حق کو غصب نہیں کیا جا سکتا۔

سوشل میڈیا پہ کچھ حساس طبیعتوں نے ہماری موت کا مسئلہ اٹھایا کہ ہمیں اس قدر جلد فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں وہ غلط ہیں کیونکہ بات اصول کی ہے اور قانون کا بنیادی اصول ہے کہ مٌردوں کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہوتے۔ ہمیں تو زندگی میں کوئی بنیادی حق نہیں ملا تو موت کے بعد ہم کس حق کے سزاوار ٹھہرتے۔

میں نے سنا ہے کہ تو میری لاش دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئی۔ تجھے میرے مرنے کا قلق اور افسوس تو تھا ہی لیکن سنا ہے کہ زیادہ رنج میرے تابوت کو کرائے کی ویگن کی چھت پر دیکھ کر ہوا۔ پیاری ماں میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ میرا تابوت کسی ہیلی کاپٹر، کسی جہاز یا کسی ایمبولینس میں نہیں آ سکتا تھا۔ میں نہ تو ملالہ ہوں اور نہ ہی سلالہ کہ میرے لئے جہاز اور ہیلی کاپٹر آتے یا کسی ملک کے ستھ تعلقات کشیدہ ہوتے۔ تو نے کیا سمجھا کہ تیرے بیٹے کی بھی وہی عزت و تکریم ہے جو اے پی ایس کے شہدا کی تھی؟ تیرے گھر بھی میڈیا چینلز کا تانتا بندھا ہوتا اور اور تجھ سے تیری ممتا اور میرے بچپن پہ سوال کیے جاتے اور مہینوں میڈیا چینلز پہ میرا ماتم اور سوگ منایا جاتا؟ میری خاطر بھی وکلا کی تحریکیں ہڑتالیں کرتیں اور عدالتیں بند رہتیں؟ پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا جاتا۔ سیاسی دھرنے ختم کیے جاتے۔

اب اسے میں تیری سادہ لوحی سمجھوں یا بےوقوفی؟ تو کیوں بھول جاتی ہے کہ میں کسی فوجی کا بیٹا ہوں اور نہ کسی بار اور بینچ کا حصہ، کسی سردار کا بیٹا ہوں اور نہ ہی کسی نواب کا لعل کہ جسکی خاطر ریاست سوگ میں ڈوب جاتی۔ میرے لئے بھی ایس پی آر کا کوئی آئیٹم سانگ ریلیز ہوتا یا چیف جسٹس صاحب سوؤ موٹو لیتے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ میڈیا بھی اب آہنی زنجیروں میں نہیں بلکہ مالیاتی زنجیروں میں مقید ہے۔ جو لگاتا ہے میڈیا اسی کے گن گاتا ہے۔ ایس پی آر بھی آج کل سرل المیڈا کی سٹوری کے تعاقب میں ہے کہ جس سے ملکی سلامتی داؤ پہ لگ گئی ہے۔ ہماری سلامتی اور تمہارے دکھوں کا ملکی سلامتی سے وہی تعلق ہے جو بے کسوں کی سانسوں کا ان کی زندگی سے ہوتا ہے۔

میرے لئے کونسا عمران خان صاحب، محمود اچکزئی، سراج الحق، اسفند یار ولی، میر حاصل خان بزنجو سڑکوں پہ نکلے کہ عدالت کے پاس تمھارے دکھوں اور میری زندگی کا کیس سننے کیلئے وقت ہو۔ اس لئے میری ماں تو نہ تو میری موت پہ ماتم کر اور نہ ہی پسِ مرگ میری لاش کی بے توقیری پہ۔

ہم مقدر کے ماروں کے نصیب میں یہی لکھا ہے اور تو بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لے۔

اے پی ایس پہ حملے کو ملک کی سلامتی اور تعلیم پہ حملہ تصور کیا گیا۔ وکلا پہ حملہ کو عدل و انصاف پہ کاری ضرب سمجھا گیا اور ہماری بے وقت موت کو سی پیک پہ حملہ گردانا گیا۔ سی پیک سے اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے کیونکہ اس کی تکمیل سے صاحبان اقتدار کے کاروبار میں وسعت ائے گی اور ہم بلوچوں کو کہیں خوانچہ لگانے اور کہیں ٹائر پنکچر کی دکان کھولنے کے وسیع ترین مواقع فراہم ہوں گے۔ سی پیک کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی حفاظت کیلئے فوج کا ایک ڈویژن مقرر کیا گیا ہےکیونکہ سی پیک اب پاکستان کی نئی شہ رگ ہے۔ ہماری زندگی کے چراغ گل ہو جانے سے لاہور اور اسلام آباد کی روشنیوں کو جِلا ملے گی کہ جہاں سے سی پیک کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ لہٰزا تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ کل جب سی پیک پہ عالمی تجارت ہو گی تو تیرا چھوٹا بیٹا کہیں کسی سڑک کے کنارے ریڑھی لگائے گا یا کسی ہوٹل پہ چھوٹو ہوگا۔ اگر میں یوں بے سبب اور رات کی تاریکی میں نہ مارا جاتا تو چھوٹو کے روزگار کا کیا بنتا کیونکہ مجھے پڑھانے لکھانے کے بعد تیرا اعتبار تعلیم سے تو ویسے بھی اٹھ چکا ہے۔ تجھے تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تیرے بیٹے کا لاشہ صیح سلامت ویگن کی چھت پر گھر پہنچا ہے۔ نہ تو تیرا بیٹا غائب ہوا اور نہ ہی تجھے اس کی مسخ شدہ لاش وصول ہوئی۔ تو ساری زندگی اسی بات پہ اللہ کا شکر ادا کر تو کم ہے۔

مجھے نہ تو اپنی زندگی جانے کا دکھ ہے نہ ہی میڈیا سے کوئی گلہ، نہ ججوں سی کوئی سوال، نہ سرحدوں کے رکھوالوں سے کسی آیٹم سانگ کی امید، نہ حکمرانوں سے کوئی آس اور نہ اپنے لاشے کی بے حرمتی کا کوئی رنج ہے۔ ہاں مارنے والے سے ایک گلہ ضرور ہے کہ چند دن ٹھہر جاتے کہ میں مہینہ مکمل ہونے پہ اپنی تنخواہ وصول کر کےغریب ماں کو بھجوا دیتا۔ وہ میرا لاشہ وصول کرنے سے پہلے میری تنخواہ وصول کر لیتی۔ بس یہی تمنا تھی لیکن تم نے میری تمنا ارمان میں بدل دی۔

تمنا وہ تمنا ہے جو دل کی دل میں رہ جائے
جو مر کر بھی پورا نہ ہو اسے ارماں کہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments