کرونا وائرس: حسین عبداللہ ہارون کے انکشافات


‎ہلاکت خیز کورونا وائرس کو شیطانی دماغ رکھنے والے سیاستدانوں کی آشیرباد سے لیبارٹری میں بنایا گیا یہ اب بے پر سازشی نظریے تک محدود نہیں بلکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین عبداللہ ہارون کے ٹھوس دلائل کے ساتھ انکشافات ہیں۔

‎انہوں نے ثبوت اور شواہد کی روشنی میں گواہی دی ہے کہ یہ وائرس ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جسے برطانیہ کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا، اسے امریکا میں رجسٹرڈ کیا گیا اور پھر کینیڈا کی لیبارٹری سے ائیرکینیڈا کی پرواز کے ذریعے باقاعدہ طور پر ووہان ‎ کی لیبارٹری میں پہنچایا گیا۔

‎حسین عبداللہ ہارون کوئی عام فرد نہیں ہیں پاکستان بنانے والے خاندان کے چشم و چراغ حسین عبداللہ ہارون کے داد قائداعظمؒ کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، خود بابائے قوم جنہیں مسلم لیگ (ن) کے پختہ ستون کے لقب سے مخاطب فرماتے تھے۔ ‎حسین عبداللہ ہارون سفارتی محاذ پر ایک پختہ کار قابل شخصت کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ سپیکر سندھ اسمبلی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب بھی رہے ہیں ‎وہ اقتدار کے عالمی ایوانوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے پس پردہ رازوں کے امین ہیں۔ اس لئے ان کی اس بات کو عام تجزیہ سمجھ کر نظرانداز کرنا عین حماقت ہے۔

‎سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے انہوں نے کورونا پر اب تک کی تحقیق اور گردش کرتی افواہوں کا جائزہ لینے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ اس معاملے میں بہت سی اہم باتوں کو حذف کیا جارہا ہے۔ ان کی سوچی سمجھی رائے میں یہ جان لیو ا کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ اسے لیبارٹری میں سازش کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ اس بیماری کا مقصد لوگو ں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ یہ ”شیطانی مقصد“ کیا ہے؟ اس کی بھی انہوں نے پرتیں کھول دی ہیں۔

‎انہوں نے بتایا کہ 2006 میں ’کورونا‘ کے نام سے ایک امریکی کمپنی نے حکومت سے پیٹنٹ یا منظوری حاصل کی، 2014 میں یہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کسی ایک جگہ سے حاصل نہیں کیا گیا، اس کی ویکسین کی ’پیٹنٹ‘ لی گئی۔ نومبر 2019 میں اسے باقاعدہ منظور کیا گیا جس کی ویکسین اسرائیل میں بننا شروع ہوئی۔ انہوں نے ایک ایک ’پیٹنٹ‘ کا نام، اندراج نمبر اور رجسٹریشن کی تاریخ بھی بیان کی۔ اس کا پیٹنٹ نمبر 10، 10,701 تھا۔ حیرت انگیز طورپر جنوری میں امریکا میں پہلے کیس کے دریافت ہوتے ہی یہ پیٹنٹ ختم کردیا گیا۔

‎اسرائیل نے یہ واضح اعلان کردیا ہے کہ جو ملک ہمیں سفارتی طورپر تسلیم کرتے ہیں، صرف ان ہی کو یہ ویکسین دی جائے گی۔ یعنی سر پر تلوار رکھ کر دنیا سے منوانے کی تیاری ہے کہ اسرائیل کو مانو ورنہ قبر میں اتر جاؤ۔

‎سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ کورونا کو انگلینڈ کے ’پیر برائٹ انسٹیٹیوٹ‘ (Pirbright) میں بنایا گیاجس کی مالی مدد ”بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاونڈیشن“ نے کی۔ جی وہی مائکروسافٹ والا بل گیٹس جو دنیا بھر کی مدد کے لئے گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور لوگوں کی صحت کے حوالے سے جنہیں بہت فکر ہے۔ لیکن ان کے اصل ارادوں کی تفصیل اب کھل کر سامنے آرہی ہے۔ وائرس بنانے میں ’گیٹس فاونڈیشن‘ کے علاوہ ’بلوم برگ‘ ، ’جان ہاپکنزسکول آف پبلک ہیلتھ‘ اور ’ورلڈ اکنامک فورم‘ نے بھی مالی مدد فراہم کی۔

‎حسین عبداللہ ہارون نے کورونا کو مخصوص ’کوویڈ۔ 19‘ نام دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کو ”سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پرویونشن“ (سی ڈی سی) یعنی بیماریوں سے بچاؤ اور ان پر قابوپانے کے تحقیقی مرکز کی اجازت سے بنایا گیا۔ انہوں نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا کہ برطانیہ میں اس وقت ایک چینی ’بائیولوجسٹ‘ یعنی حیاتیات کے شعبے کے ماہر چین کی حراست میں ہے۔

‎ووہان میں بیماری پھیلانے سے پہلے سازشی ممالک نے اس کی دوائی بنانے کی ضرورت محسوس کی اور ’ایونٹ 201‘ نامی ایک دوائی کی کمپیوٹر پر مشق بھی کی گئی۔ بچاؤ کے لیے 18 اکتوبر 2019 میں یہ مشق نیویارک میں کی گئی تھی۔ مذکورہ مشق کا انتظام ”بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاونڈیشن“، ”جان ہاپکنز سینٹر فار پبلک ہیلتھ سیکوریٹی“ اور ”ورلڈ اکنامک فورم“ کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ اس مشق جس میں پارلیمنٹ کے ارکان، بزنس لیڈروں اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا۔

مشق یہ تھی کہ کورونا وائرس وبا پھیلنے کی صورت میں بچاؤ کس طرح سے کیا جائے؟ یہ ایک بڑے وسیع پیمانے پر کی جانے والی مشق تھی جو چین کے وسطی علاقے ووہان میں پہلا کیس رپورٹ ہونے سے چھ ہفتے قبل کی گئی تھی۔ حیرتوں کی حیرت تو یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی کمپوٹرمشق کا اہتمام کرنے والی تنظیمیں وہی تھیں جو اس وائرس کے پیٹنٹ کی ملکیت رکھنے والے ادارے کو فنڈز فراہم کررہی تھیں۔

‎یہ جان کر حیرت پریشانی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ مشق میں باقاعدہ ماحول بنایا گیا کہ میڈیا کیسے کورونا وائرس کے پھیلنے سے ہونے والی تباہی کی بریکنگ رپورٹ پیش کررہا ہے۔ شہری خوفزدہ ہیں اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اس مصیبت سے نجات کے لئے اقدامات کرے۔

‎حسین عبداللہ ہارون نے مزید انکشاف کیا کہ چین کے شہر ووہان میں ’ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی‘ کا چینگ دیان سائنسی پارک ہے جس میں ووہان نیشنل بائیوسیفٹی لیبارٹری کے درجہ تین اور چار واقع ہیں۔ یہ درجہ بندی کسی بھی ’وائرس‘ کومحفوظ رکھنے کے انتظامات کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ ووہان کی اس لیبارٹری میں کورونا وائرس پہنچانے میں دو چینی سائنسدانوں کا نام لیا جاتا ہے۔

‎ ڈاکٹر چی ژیانگ گیو ماہر وائرس بھی تھیں جو 1996 میں کینیڈا مزید تعلیم کے لیے آئیں۔ ڈاکٹر چی کا شوہر کیڈنگ چینگ اس وقت کینیڈا کے شہر ’ونی پیگ‘ کی لیبارٹری میں بطور ’بائیولوجسٹ‘ یا ماہر حیاتیات کام کرتا ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی ”ایبول“ اور ”سارس وائرس“ پر تحقیقی کام کرتے تھے۔ گزشتہ جولائی میں ’سی این بی سی‘ نیوز نے بتایاتھا کہ ’ونی پیگ‘ کی لیبارٹری سے ایک چینی خاتون سائنسدان، اس کے شوہر اور ان کے چند پوسٹ گریجویٹ طلبا کو حراست میں لیا گیاہے۔

‎اس خبر کے ایک ماہ کے بعد ’سی این بی سی‘ نے مزید خبر دی کہ مذکورہ سائنسدان جوڑے نے ”ایبول“ ا اور ”ہینی پا“ وائرس ”ائر کینیڈا“ کی پرواز کے ذریعے 31 مارچ کو چین بھیجے۔ خبر کے مطابق وائرس کی ترسیل کے لیے تمام قواعد و ضوابط پر عمل کیا گیا تھا۔

‎اس ’شپمنٹ‘ یا ترسیل کے ذریعے ”کورونا وائرس“ ووہان کی لیبارٹری بھجوایا گیا۔ بتایا گیا کہ ڈاکٹر چی نے 2017 کے دوران چین کے پانچ دورے کیے جس میں چین کی لیول 4 کی نئی لیبارٹری کے ’ٹیکنیشنز‘ یا تکنیکی معاون عملے اور سائنسدانوں کو تربیت دی۔ یہ سائنسدان جوڑا اب بھی زیر حراست ہے۔ ”کورونا“ کا ”پیٹنٹ وائرس“ یا تجارتی مارکہ ’ونی پیگ‘ کی لیبارٹری کے علاوہ انگلینڈ اور کئی دیگر ممالک کی لیبارٹریوں کو بھی فراہم کیا گیا۔

‎اس ساری سازش کے پیچھے چھپی کہانی کو بیان کرتے ہوئے حسین عبداللہ ہارون کہتے ہیں کہ موت سے تھر تھر کانپتی دنیا کو بتایاجارہا ہے کہ اس وائرس کا توڑ اسرائیل کے پاس موجود ہے۔ علاج کے نام پر کھربوں ڈالرز کمائے جائیں گے۔ روس اور چین بھی دوا بنانے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کا اعلان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دوا صرف ان ممالک کو ملے گی جو اس کے وجود کو تسلیم کریں گے۔ جو ملک اسے نہیں مانے گا، اسے دوا نہیں ملے گی۔

‎تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ایک وائرس کے ہتھیار نے صیہونیوں کے وہ تمام اہداف پورے کردیے ہیں جو وہ عرصہ قدیم سے حاصل کرنے کی جدوجہد میں تھے۔ انہوں نے چین کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ پیدا کر دی، پوری دنیا کو موت کے خوف میں مبتلا کر کے معیشت کو ریت کی دیوار بنا دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1962 کے بعد ایران کو پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر کا قرض مانگنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اٹلی کو ”ون بیلٹ۔ ون روڈ“ منصوبے میں شامل ہونے کی سزا ملی، امریکہ کے منع کرنے کے باوجود وہ چین کے ساتھ شامل ہوا۔ چین ایران میں اگلے پچیس سال میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا تھا۔

‎اب بھی کسی کو شک ہے کہ کورونا بائیو لاجیکل ہتھیار نہیں تو وہ اپنی عقل کا ماتم کرے۔ اب بھی اگر کسی کی آنکھ اور زبان بند ہے تو اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں یا تو وہ سازش کا خود مہرہ ہے یا پھر وہ عقل سے پوری طرح پیدل ہے۔ صاف نظرآرہا ہے کہ دنیا میں ایک نئے عالمگیر نظام کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ صہیونی خوشی سے چیخ چیخ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ ان کا دجال بس آنے کو ہے۔ دنیا میں اب ان کے اقتدار کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کی کھلی باچھیں، ان سے اڑتا کف بتارہا ہے کہ اللہ تعالی کا کوڑا چلنے کو ہے۔ صیہونیوں کے ذریعے مسلمانوں کو سزا اور پھر اللہ کی ٹیم کے ذریعے شیطان کے چیلوں کا عبرت ناک انجام بس قریب ہی آن پہنچا ہے۔

پس تحریر عرض ہے : سارے ملک سے روز مرہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے اور کمیابی کی اطلاعات آرہی ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں سرکاری اہلکار ویسے ہی گھر داماد بنے بیٹھے ہیں انہیں بازاروں میں نکالنا چاہیے مقامی انتظامیہ خاص طور پر پولیس کے ساتھ مل کر ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے خلاف فوری سخت اقدامات کرنا چاہئیں۔ مانچسٹر سے ایک دوست نے بتایا کہ انگریزوں نے ہر چیز سستی کردی ہے لیکن ہمارے دیسیوں نے سات سمندر پار بھی وبا کے دنوں میں لوٹ مار شروع کر رکھی ہے

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments